اسلام آباد(سی این پی) سپریم کورٹ نے ریمارکس دیے ہیں کہ مجرم سزا کاٹ کر الیکشن لڑنے کیلئے اہل ہوجاتا ہے۔آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلی مدت کیس کی سماعت ہوئی۔
جمعرات کو درخواست گزار کے وکیل نے دلائل دیے کہ عدالتیں ڈیکلریشن دینے کا اختیار رکھتی ہیں
2017 میں سپریم کورٹ نے قرار دیا جب حقائق تسلیم شدہ ہوں ڈیکلریشن دیاجا سکتا ہے،نااہلی تاحیات ہوگی کہاں لکھا ہے
جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ سپریم کورٹ کیسے ڈیکلریشن دے سکتا ہے، سپریم کورٹ کو یہ حق کیسے حاصل ہوا، کیا آرٹیکل 62ون ایف کا براہ راست کورٹ آف لاء کے اختیار کا استعمال کر سکتی ہے
کیا الیکشن ٹربیونل تاحیات نااہل بھی کر سکتا ہے، سوال یہ ہے کہ نااہلی تاحیات ہوگی یہ کہاں لکھا ہوا ہے، نااہلی تاحیات کا اصول توسمیع اللہ بلوچ کیس میں طے کیا گیا
اگر ہم سمیع اللہ بلوچ کیس اور سیکشن 232دونوں کو غلط کہہ دیں تو نااہلی تو ایک دن بھی نہیں رہے گی
کوئی سچا ہے یا نہیں یہ اصول تو ٹرائل کے بعد ہی طے ہو سکتا ہے، اسلام میں توبہ اور صراط المستقیم پر واپس آنے کا راستہ موجود ہے۔
جج جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ سنگین جرائم میں ملوث افراد بھی سزا کاٹ کر الیکشن لڑنے کیلئے اہل ہو جاتے ہیں
اہلیت سے متعلق دونوں آرٹیکل الیکشن سے قبل لاگو ہوتے ہیں، جب قانون آچکا ہے اور نااہلی پانچ سال کی ہوچکی تو تاحیات والی بات کیسے قائم رہے گی ۔
غداری ،زیادتی،قتل کے الزام کا سامنا کرنے والا الیکشن لڑ سکتا ہے لیکن معمولی خطا پر نااہلی تاحیات۔
جسٹس قاضی فائز عیسینے کہا کہ ایک فوجی آمر آتا ہے سب کو اٹھا کر باہر پھینک دیتا ہے، آمروں نے صادق و امین والی شرط اپنے لئے کیوں نہ ڈالی
آئینی ترامیم بھی گن پوائنٹ پر آئیں، بندوق کا تقدس کیسے مان سکتے ہیں، آرٹیکل 62اور 63 کا اطلاق فوجی آمر نے خود پر کیوں نہیں کیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اراکین پارلیمنٹ کی اہلیت تو آمر نے آئین میں شامل کی، یہاں ترامیم بھی گن پوائنٹ پر ہوتی رہیں، ان لوگوں نے سوچا ہوگا آدھی جمہوریت آ جائے پوری جمہوریت سے تو بہتر ہے
چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن آٹھ فروری کو ہو رہے ہیں، ایک ریٹرننگ افسر تاحیات نااہلی کے اصول کا اطلاق کرے گا
دوسرا ریٹرننگ افسر پانچ سال نااہلی کی بات کرے گا، ہم اس تضاد کو ختم کرنے کیلئے کیس سن رہے ہیں، سوال یہ ہے کہ نااہلی تاحیات ہے یا پانچ سال، کیا ہم نااہلی دو سال بھی کر سکتے ہیں۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ کون تعین کرے گا کس کا کردار اچھا کس کا نہیں۔وکیل عثمان کریم نے جواب دیا کہ حتمی طور پر تعین اللہ ہی کر سکتا ہے۔
جسٹس قاضی نے کہا کہ ایک مرتبہ حلف کی لینگویج تبدیل ہوئی تو پورا ملک بند کر دیا گیا، آئین میں بہت سی چیزیں تھوپی گئی ہیں، بدنیتی والی بات نہیں لیکن ہم نے ایک لکیر کھینچنی ہے
، ملک سے غداری کرنے پر نااہلی کی سزا پانچ سال اور جھوٹ بولنے کی سزا تاحیات ہے، فیصل واوڈا میں موڈ بنا تو اسے چھوڑ دیا ، پھر موڈ تبدیل ہوا نااہلی تاحیات کر دی گئی، جنھوں نے پورے ملک کو یرغمال بنائے رکھا انھیں کچھ نہیں کہا گیا۔