اسلام آبا د(سی این پی)190 ملین پاونڈز کے القادر ٹرسٹ ریفرنس میں اسلام آباد کی احتساب عدالت کے حکم نامے کے تحت پراپرٹی ٹائیکون ملک ریاض اور ان کے صاحبزادے کی تمام جائیدادیں، گاڑیاں اور بینک اکاونٹس منجمد کر دئیے گئے ۔عدالتی حکمنامے میں درج تمام جائیدادیں، گاڑیاں اور بینک اکاونٹس منجمد کر دئیے گئے ہیں، ملک ریاض کی منجمد گاڑیوں میں لینڈ کروزر، بی ایم ڈبلیو شامل ہیں۔
یاد رہے کہ یکم دسمبر 2023 کو نیب کی جانب سے ریفرنس دائر کیا گیا تھا، جس کے بعد 4 دسمبر کو احتساب عدالت اسلام آباد نے 190 ملین پاونڈز کا القادر ٹرسٹ ریفرنس سماعت کے لیے مقرر کرتے ہوئے پراپرٹی ٹائیکون ملک ریاض، وزیر اعظم کے سابق معاونین خصوصی مرزا شہزاد اکبر اور زلفی بخاری اور دیگر تین افراد کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کر دیے تھے۔
7 دسمبر 2023 کو اسلام آباد کی احتساب عدالت نے 190 ملین پاونڈز ریفرنس میں ملزمان ملک ریاض حسین، ان کے بیٹے احمد علی ریاض، مرزا شہزاد اکبر، ذولفی بخاری، فرحت شہزادی اور ضیا المصطفی نسیم کو عدالت میں پیش نہ ہونے کی وجہ سے اشتہاری قرار دینے کی کارروائی کا آغاز کر دیا تھا۔8 دسمبر کو ملزمان ملک ریاض حسین، ان کے بیٹے احمد علی ریاض، مرزا شہزاد اکبر، زلفی بخاری، فرحت شہزادی اور ضیا المصطفیٰ نسیم کو عدالت میں پیش نہ ہونے کی وجہ سے اشتہاری قرار دیے جانے کے بعد ان کے اشتہار جاری کردیے تھے۔
6 جنوری کو احتساب عدالت نے 190 ملین پاونڈز کے القادر ٹرسٹ ریفرنس میں پراپرٹی ٹائیکون ملک ریاض سمیت ریفرنس کے 6 شریک ملزمان کو اشتہاری اور مفرور مجرم قرار دے دیا تھا۔8 جنوری کو عدالت نے 190ملین پاونڈز ریفرنس میں اشتہاری 6 ملزمان کے دائمی وارنٹ گرفتاری بھی جاری کر دیے تھے، اور نیب نے 6 اشتہاری ملزمان کے اثاثوں کی تفصیلات عدالت میں جمع کرادی تھیں، عدالت نے ملزمان کے ملکیتی اثاثے منجمند کرنے کا بھی حکم دے دیا تھا۔
واضح رہے کہ القادر ٹرسٹ کیس میں الزام لگایا گیا ہے کہ عمران خان اور ان کی اہلیہ نے پی ٹی آئی کے دور حکومت میں برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی (این سی اے) کی جانب سے حکومتِ پاکستان کو بھیجے گئے 50 ارب روپے کو قانونی حیثیت دینے کے عوض بحریہ ٹاون لمیٹڈ سے اربوں روپے اور سینکڑوں کنال مالیت کی اراضی حاصل کی۔
یہ کیس القادر یونیورسٹی کے لیے زمین کے مبینہ طور پر غیر قانونی حصول اور تعمیر سے متعلق ہے جس میں ملک ریاض اور ان کی فیملی کے خلاف منی لانڈرنگ کے کیس میں برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی (این سی اے) کے ذریعے 140 ملین پاونڈ کی وصولی میں غیر قانونی فائدہ حاصل کیا گیا۔
عمران خان پر یہ بھی الزام ہے کہ انہوں نے اس حوالے سے طے پانے والے معاہدے سے متعلق حقائق چھپا کر کابینہ کو گمراہ کیا، رقم (140 ملین پاونڈ) تصفیہ کے معاہدے کے تحت موصول ہوئی تھی اور اسے قومی خزانے میں جمع کیا جانا تھا لیکن اسے بحریہ ٹاون کراچی کے 450 ارب روپے کے واجبات کی وصولی میں ایڈجسٹ کیا گیا۔