اسلام آباد(سی این پی) نگران وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات مرتضیٰ سولنگی نے کہا ہے کہ اعلیٰ عدلیہ کے خلاف تضحیک آمیز اور بہتان تراشی کی مہم پر تقریباً 600 سوشل میڈیا اکاؤنٹس کی تحقیقات ہوئیں اور 32 صحافیوں سمیت 110 افراد کو نوٹسز جاری کردیے گئے ہیں۔
مرتضیٰ سولنگی نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس میں کہا کہ اعلیٰ عدلیہ کے خلاف تضحیک آمیز اور بہتان تراشی پر مہم جاری تھی، جس پر وفاقی وزارت داخلہ نے 16 جنوری کو اس معاملے پر مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دی تھی۔
انہوںنے بتایا کہ جے آئی ٹی کا پہلا اجلاس 17 جنوری اور دوسرا اجلاس 23 جنوی کو منعقد ہوا اور اب اب تک سوشل میڈیا کے تقریباً 600 اکاؤنٹس کی تحقیقات کی بنیاد پر تقریباً 100 انکوائریز رجسٹرڈ کردی گئی ہیں۔
نگران وزیراطلاعات نے بتایا کہ تقریباً 110 افراد کو نوٹس جاری کردیے گئے ہیں جن میں لگ بھگ 22 سیاسی کارکن یا سیاست دان اور 32 صحافی شامل ہیں اور ابھی تک صرف قانون کے تحت صرف نوٹسز جاری کردیئے گئے ہیں۔
مرتضیٰ سولنگی نے کہا کہ کسی کو ہراساں نہیں کیا گیا اور نہ ہی کسی کے خلاف فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) درج ہوئی ہے لیکن عدالت اور قانون اپنا راستہ خود لے گا اور اب تک جتنی کارروائی ہوئی ہے وہ قانون کے مطابق ہوئی ہے۔
انکا کہنا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 19 کے تحت اظہار رائے کی آزادی لامحدود نہیں بلکہ اس پر مناسب پابندیاں موجود ہیں، سپریم لا آف لینڈ میں درج ہے کہ مسلح افواج اور عدلیہ کے خلاف آئین اور قانون کے دائرہ سے باہر مہم نہیں چلا سکتی۔
مرتضیٰ سولنگی نے کہا کہ اس معاملے پر بات تنقید کی نہیں، بات تضحیک اور کردار کشی کی ہو رہی ہے، پچھلے دنوں اعلیٰ عدلیہ کے خلاف جو مہم چلائی گئی وہ کسی طور پر بھی تنقید کے زمرے میں نہیں آتا، تنقید کو تہذیب کے دائرہ میں رکھیں اور بہتان تراشی سے گریز کریں۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ قانون سازی پارلیمان کا اختیار ہے اور نوٹس دینا متعلقہ اداروں کا اختیار ہے، جے آئی ٹی بننے کے بعد کسی کو گرفتار نہیں کیا گیا، جے آئی ٹی بننے کے بعد بہتان تراشی، کردار کشی اور غلیظ حملے کرنے کی مہم میں واضح کمی آئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایک معاملہ عوامی رائے اور ایک قانون کی عدالت کا ہے، قانونی سوالات قانون کی عدالت میں رکھیں گے، یہ نہیں ہو سکتا کہ یکطرفہ طور پر حکومت، حکومتی اداروں اور اعلیٰ عدلیہ پر حملے ہوں، حقائق بتانا ضروری ہے، قانونی سوالات کے جوابات قانون کی عدالت میں پیش کریں گے۔موجودہ جے آئی ٹی کا دائرہ اختیار واضح ہے، یہ جے آئی ٹی موجودہ دور میں بنی ہے۔
اس موقع پر ایف آئی اے کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) اسحاق جہانگیر نے کہا کہ ضروری نہیں کہ ہر نوٹس پر ایف آئی آر درج ہو، جے آئی ٹی بننے کے بعد غیر یقینی کی فضا میں کمی آئی ہے۔ڈی جی ایف آئی اے نے کہا کہ جے آئی ٹی بننے کے بعد بہت سے لوگوں نے اپنی ٹویٹس اور پوسٹس ڈیلیٹ کیں۔