نور مقدم قتل کیس کا فیصلہ محفوظ،24فروری کو سنائے جانے کا امکان

اسلام آباد()ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج عطاء ربانی کی عدالت میں زیر سماعت نورمقدم قتل کیس میں وکلاء کے دلائل مکمل ہونے پر فیصلہ محفوظ کرلیاگیا۔گذشتہ روز سماعت کے دوران مدعی کے وکیل نثار اصغر نے حتمی دلائل دیتے ہوئے کہاکہ 28 ستمبر کو فرد جرم عائد ہوئی تھی اسلام آباد ہائیکورٹ نے تیسری مرتبہ وقت دیا، دو ملزمان کی جانب سے یہ بات کی گئی کہ ہم نے عبوری ضمانت دائر کر دی،کہا گیا کہ شوکت مقدم بااثر تھا اس لیے اس نے گرفتار کرایا ہے،491 کی درخواست دائر کی 26 جولائی کو سیشن جج کامران بشارت مفتی نے مسترد کی،تھراپی ورکس کے مالک طاہر ظہور نے 342 کے بیان میں آن اوتھ بیان کیوں نہ دیا،زخمی امجد نے ایک پرائیوٹ شکایت کی 6 نومبر کو اسی عدالت نے مسترد کرنیکا فیصلہ سنایا، شوکت علی مقدم کو 10 بج کر 4 منٹ پر آگاہ کیا جا رہا ہے،امجد 8 بج کر 49 منٹ پر پمز ہسپتال میں RTA لکھوا رہے ہیں،امجد زخمی ہونے سے پہلے پرائیوٹ اسپتال میں گے انہوں نے کہا ہم میڈیکل نہیں کرتے،مدعی کا پریشر ہوتا تو اس گھر کو باہر سے کنڈی لگا دیتے لیکن لوگ آرہے ہیں جا رہے ہیں ہمیں تو نام بھی نہیں پتہ، ملزمان کے وکیل کے دلائل تھےکہ زاکرجعفر اور عصمت آدم جی کی حد تک تفتیشی افسر کے پاس کوئی ثبوت نہیں،والدین خود مانتے ہیں کراچی سے آئے، تین دفعہ تھانے گئے، پولیس کو لائسنس دیا اور پھر پولیس نے انہیں چھوڑ دیا،یہ وقوعہ عید کے دن ہو رہا ہے اور وہ بھی عید الاضحی جس میں تین چھٹیاں ہوتی ہیں،مدعی شوکت مقدم عید کی وجہ سے 22 جولائی کو آدھے گھنٹے کے لیے پولیس سٹیشن آیا،سی ڈی آر اور ڈی وی آر وکلاء کے پاس تھی ثابت کر دیں مدعی دس بجے سے پہلے جائے وقوعہ پر تھا،شوکت مقدم 11 بج کر 45 منٹ پر جائے وقوعہ پر پہنچا،شوکت مقدم کا بیان ہے قتل کے حوالے سے دس بجے آگاہ کیا گیا اور 11 بج کر 45 منٹ پر پولیس نے بیان لکھا،گواہ پولیس کانسٹیبل اقصی رانی کہتی ہےکہ دس سوا دس بجے جائے وقوعہ پر پہنچ گئی تھی،کرائم سین کا انچارج عمران کہتا ہےکہ میں 10 بج کر 30 منٹ پر جائے وقوعہ پر پہنچ گیاتھا،دس بجے سے پہلے صرف پولیس اہلکار بشارت رحمن جائے وقوعہ پر پہنچا تھا،تفتیشی افسر عبد الستار کہتا ہے 9 بج کر 45 منٹ سے دس بجے کے درمیان قتل کی اطلاع ملی تھی،تھراپی ورکس کے ملازمین تو جائے وقوعہ پر تھے، انہوں نے تھیرپی ورکس کے چیف ایگزیکٹیو طاہر ظہور کو قتل کا بتایا، تھراپی ورکس کے ملازمین جائے وقوعہ پر موجود تھے اور تھانہ صرف ڈیڑھ کلو میٹر دور تھا،اگر سب کچھ تھانے میں بیٹھ کر کیاگیاہو تو ایف آئی آر میں مختلف تحریریں نہیں ہونی چاہیے تھیں،مدعی مقدمہ کے وکیل شاہ خاور ایڈووکیٹ نے کہاکہ نورمقدم قتل کیس میں ڈی وی ار، سی ڈی ار، فورینزک اور ڈی این ائے پر مبنی ٹھوس خواہد ہیں، نورمقدم قتل کیس میں تمام شواہد سائنٹیفکلی شامل کیے گئے ہیں،ملزمان کے خلاف پراسیکیوشن نے کیس ثابت کردیا،عدالت ملزمان کو سخت سے سخت سزا دے، مدعی مقدمہ کے وکیل شاہ خاور کے دلائل مکمل ہونے پر پراسیکیوٹر رانا حسن عباس نے حتمی دلائل شروع کرتے ہوئے کہاکہ پوسٹ مارٹم رپورٹ میں یہ بات مانی گئی ہے کہ نورمقدم کا قتل ہوچکا تھا،جب سر کو جسم سے الگ کردیا گیا تو مطلب خون کی روانی نہیں ہوگی اور قتل ہوگیاہے،پنجاب فرانزک سائنس لیبارٹری نے ڈی وی آر کو منظور کیا کہ اس میں کوئی ایڈیٹنگ نہیں ہوئی،نورمقدم نےجب چھلانگ ماری تو وہ ٹھیک طرح چل بھی نہیں پارہی تھی،یہ کہتے ہیں کہ ہاتھ میں موجود موبائل فون کی وضاحت نہیں دی،چار پانچ بندے جو ڈی وی آر میں نظر ارہے وہ خود کہہ رہے ہیں کہ یہ ہمارے نام ہیں اور ہم موجود تھے،ڈی وی آر میں سب کچھ نظر آرہا ہے کہ کون پہلے آیا اور کون بعد میں آیا، کوئی شک ہے ہی نہیں،نکل گلووز پر نورمقدم کا خون لگا ہوا ہے جس سے ثابت ہوتاہے کہ نورمقدم کو قتل سے قبل ٹارچر کیاگیا،7 ماہ کیس چلا،20 جولائی ایف آئی آر درج ہوئی،دوران سماعت اسد جمال ایڈووکیٹ نے مختلف عدالتوں کے حوالے پیش کرتے ہوئے کہاکہ سپریم کورٹ نے دو فیصلوں میں ایک ہی بات کہہ چکی ہے، پراسیکیوشن کا کیس تھا ملزمان کی آپس میں گفتگو ہو رہی ہے،سپریم کورٹ نے کال ڈیٹا ریکارڈ کو discard کر دیا،یہ کہتے ہیں ایس پی دفتر سے ڈیٹا جنریٹ ہوا کس رول کی بنیاد پر یہ بات کہہ رہے ہیں،ہمارے خلاف چارج فریم کیا گیا کہ ہم ملزمان کے ساتھ رابطہ میں تھے،اب اس کو ثابت کریں کہ قتل کے متعلق والدین کو معلوم تھا،سیکشن 94 کال ڈیٹا سمن کے لیے رکھا گیا ہے لیکن ایس پی کے پاس ڈیٹا موجود ہے تو پھر سیکشن 94 ختم کر دیں،کال ڈیٹا تھرڈ پارٹی نے جنریٹ کیا ہے، اس پر فیصلہ کیسے دیا جا سکتا ہے،پرائیویسی سے متعلق بےنظیر بھٹو کا کیس سپریم کورٹ میں آیا تھا
فون ٹیپنگ کا معاملہ تھا آرٹیکل 14 کی وائلیشن ہے، ڈیٹا ریکارڈ حاصل کرنا ہے تو پراپر چینل کے ذریعے حاصل کرنا چاہیے،ہمیں شک کا فائدہ ملنا چائیے،شوکت مقدم قابل عزت لیکن وہ خود فریق ہیں لیکن اس کمرا عدالت میں کوئی فرشتہ نہیں انسان ہیں،ایک سے ڈیڑھ ماہ تفتیش چلتی رہی لیکن کال ڈیٹا کی بات نہیں کی،ہم نے تو کال ڈیٹا ریکارڈ کو مانا ہی نہیں ہے، سوال کیا گیا نور مقدم کی والدہ کو شامل تفتیش کیا گیا،پراسیکیوشن کے گواہ نے ہی یہ بتایا لیکن اسکو شامل تفتیش کیوں نہیں کیا گیا، اسد جمال کے جوابی دلائل ختم ہونے پر ملزم ذاکر جعفر کے وکیل بشارت اللہ نے جوابی دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہاکہ پروسیکیوشن نے کہا کہ نورمقدم قتل کیس ہائی پروفائل کیس ہے،میں بتاتا چلوں کہ عدالت کے سامنے تمام کیس اہم ہوتے ہیں،وفاقی وزیر شیخ رشید نے کہا کہ میرے بس میں جتنا تھا میں نے کردیا،شیخ رشید نے کہا کہ ظاہرجعفر کو پولیس حراست میں اسے گولی تو نہیں مار سکتا، پروسیکیوشن بتا دے کہ جتنے بھی گواہان تھے ان میں سے کس نے کہا کہ واقع کی اطلاع ہم نے دی، پروسیکیوشن بتائے کہ یہ گواہ ہے اور اس نے قتل ہوتے دیکھا ہے،قتل کا کوئی چشم دید گواہ نہیں ہے،ملزم زاکرجعفر کے وکیل بشارت اللہ جوابی دلائل مکمل ہونے پر ملزم ظاہر جعفر کے وکیل شہریار نواز نے دلائل دیے، وکلاء کے مکمل ہونے پر عدالت نے فیصلہ محفوظ کرلیااور کہاکہ کوشش۔کو گی کہ فیصلہ 24 فروری کو سنادیا جائے۔واضع رہے کہ 20 جولائی2021 کو نور مقدم کا قتل ہواتھا اور تقریبا 4 ماہ میں ٹرائل مکمل کیاگیاہے۔