اسلام آباد(سی این پی)مسلم لیگ(ن)، پیپلز پارٹی، مسلم لیگ(ق) اورت دیگر اتحادی جماعتوں نے ساتھ چلنے اور مل کر حکومت بنانے کا کا اعلان کرتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کو بھی مفاہمت کے عمل کا حصہ بننے کی دعوت دی ہے
مسلم لیگ(ق) کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین کے گھر پر شہباز شریف، خالد مقبول صدیقی اور دیگر قائدین کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے پیپلز پارتی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے کہا کہ آج ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ آپس میں مل بیٹھ کر حکومت بنائیں گے اور پاکستان کو مشکلوں سے نکالیں گے۔ان کا کہنا تھا کہ ہمیں معیشت، دہشت گردی یا مفاہمت سمیت پاکستان میں جو بھی مشکلات پیش آ رہی ہیں، ان کا حل نکالیں گے۔آصف علی زرداری نے کہا کہ مفاہمت کے عمل میں پاکستان تحریک انصاف بھی شامل ہے، ہم چاہتے ہیں کہ وہ بھی مفاہمت کے اس عمل کا حصہ بنے، ہر سیاسی طاقت مفاہمت کے عمل کا حصہ بنے، ہم سے بات کرے۔ہم چاہتے ہیں معاشی، دفاعی ایجنڈا اور دیگر یکساں چیزیں لے کر ہم ساتھ چلیں اور ہم میاں صاحب اور دوسرے دوستوں کو ہم کامیاب کرائیں تاکہ پاکستان اور اس کے عوام کو کامیاب کرا سکیں۔ہمیں پتا ہے کہ کتنا قرض چڑھ چکا ہے اور ہمیں آنے والے وقتوں میں قرض کی کتنی قسطیں دینی ہیں، ہر چیز پر نظر رکھتے ہوئے ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم آپس میں مل بیٹھیں۔زرداری نے کہا کہ مخالفت انتخابی مہم کی حد تک تھی، ہم ایک دوسرے کے خلاف الیکشن ضرور لڑے ہیں اور جو مخالفت کی گئی وہ انتخابی مہم کی حد تک تھی، ہماری سیاسی طور پر کوئی مخالفت نہیں ہے، ہم بیٹھ سکتے ہیں، مل سکتے ہیں، چلا سکتے ہیں اور ملک کو سنبھال سکتے ہیں۔
متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے کنوینر خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ ہمارے درمیان اختلاف اور تلخی ہو سکتی ہے لیکن پپاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے تو ایسے میں پاکستان سے زیادہ ہمارے لیے اور کوئی دوسری ترجیح نہیں ہو سکتی، اس لیے ہم سب مل کر باہمی تعاون سے جمہوریت کو مضبوط کریں گے۔شہباز شریف کا ہم نے پہلے بھی ساتھ دیا تھ اور اب بھی دیں گے، ہم انتخابات سے پہلے بھی ان کا ساتھ دینے کا وعدہ کر چکے ہیں اور ہم نے ہمیشہ اپنا وعدہ پیشگی پورا کیا ہے۔مجھے امید ہے کہ پاکستان کو مشکلات سے نکالنے کے لیے سب اپنے سیاسی مفادات کو ایک طرف رکھ کر پاکستان اور ریاست کو بچانے کے لیے اقدامات کریں گے تو اس سال کے اختتام تک پاکستان کو بہتر صورتحال کی طرف لے جائیں گے۔
چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے کہا کہ آج اس بیٹھک کا مقصد یہ تھا کہ جیسے ہم سب پہلے اکٹھے تھے تو ایک مرتبہ پھر ہم پاکستان کے نظام کو سنبھالیں، پاکستان کی جمہوریت کو مستحکم کریں۔بلوچستان عوامی پارٹی کے صدر خالد مگسی یہاں نہیں آ سکے لیکن ہماری جماعت جیسے پہلے میاں صاحب کے ساتھ کھڑی تھی، ابھی بھی ہر قسم کے تعاون کے لیے ان کے ساتھ کھڑی ہے تاکہ بلوچستان اور پاکستان کے عوام کے لیے بہتری آ سکے۔
استحکام پاکستان پارٹی کے رہنما علیم خان نے کہا کہ میں چوہدری شجاعت کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آج انہوں نے ہم سب کو یہاں مدعو کیا اور میں امید کرتا ہے کہ آج کے بعد پاکستان کے حالات بہتری کی طرف جائیں گے۔پاکستان اس وقت انتہائی مشکل دور سے گزر رہا ہے، غریب کے حالات بہت خراب ہیں اور وہ مہنگائی کے بوجھ کی وجہ سے بری طرح پسا ہوا ہے، تو اس کے لیے سب کو اپنی ذات سے باہر نکلنا پڑے گا اور ایسے فیصلے کرنے پڑیں گے جو ملک اور اس کے عوام کی خاطر ہوں۔مجھے امید ہے کہ آئندہ آنے والی شہباز شریف کی حکومت احسن طریقے سے ایسے فیصلے لے پائے گی جو عوام کے حق میں ہوں اور پرامید ہوں کہ عوام کی مشکلات میں کمی آئے گی۔اس موقع پر چوہدری شجاعت حسین نے کہا کہ ملک کی بہتری کے لیے معاشی ایجنڈا اولین ترجیح ہونی چاہیے،آج ہم سب اس لئے یہاں اکٹھے ہوئے ہیں اور قوم دیکھ رہی ہے کہ ملک کی تمام سیاسی قیادت اکٹھی ہے جو ملک کو مسائل سے نکالے گی۔
اس موقع پر مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف نے کہا کہ چوہدری شجاعت حسین کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے آج ہم سب کو یہاں مدعو کیا اور آج ملک کے سیاسی زعما اس لیے یہاں اکٹھے ہوئے ہیں کہ ہم قوم کو بتا سکیں کہ ہم اس وقت ایک ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ انتخابی مہم کے دوران ہم ایک دوسرے کے خلاف بات کرتے ہیں، اپنا موقف اور منشور پیش کرتے ہیں، وہ مرحلہ اب ختم ہو چکا اور اب پارلیمان معرض وجود میں آنے والی ہے تو اب ہماری جنگ اس ملک کے چیلنجز کےخلاف ہے۔سب سے پہلا چیلنج معیشت ہے جسے ہم نے اپنے پاؤں پر کھڑا کرنا ہے جو بذات خود ہمالیہ نما چیلنج ہے لیکن وہی قومیں آگے بڑھتی ہیں جن کی لیڈرشپ اکٹھا کر فیصلہ کر لے ہم نے اپنے اختلافات ختم کر کے اپنی قوم کو آگے لے کر جانا ہے۔ہم نے بے روزگاری اور غربت کے خاتمے کے لیے جنگ لڑنی ہے، آئی ایم ایف کے معاہدے نے پاکستان کو معاشی استحکام دیا اور اب ہم نے مزید آگے بڑھنا ہے، پاکستان کے قرضے کو کم کرنا ہے اور مہنگائی کے خلاف جنگ لڑنی ہے، معاشی شرح نمو کو بڑھانا ہے، یہ ایک بہت اہم ایجنڈا ہے۔آج ہم سب اکٹھے ہیں کیونکہ ہمیں قوم کو یہ بتانا ہے کہ انتخابات میں تقسیم شدہ مینڈیٹ آیا ہے جس کو ہم تسلیم کرتے ہیں۔انہوں نے مسلم لیگ(ن) کی حمایت پر آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ میں اور میرے قائد آپ کے شکر گزار ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ ہم نے قوم کو یہ دکھایا ہے کہ جو جماعتیں یہاں موجود ہیں، وہ ایوان کی دو تہائی اکثریت رکھتی ہیں اور منتخب ہو کر آئی ہیں اور میں نے آج پریس کانفرنس میں کہا کہ پی ٹی آئی حمایت یافتہ آزاد امیدوار حکومت بنانے کا شوق رکھتے ہیں اور ان کے پاس اکثریت ہے تو وہ لے آئیں، ہم اس اکثریت کا احترام کریں گے۔پریس کانفرنس میں مولانا فضل الرحمٰن کی عدم موجودگی کے حوالے سے سوال پر شہباز شریف نے کہا کہ میرا مولانا فضل الرحمٰن سے رابطہ ہوا تھا لیکن آج ان کا شوریٰ کا اجلاس ہوا ہے اور جونہی وہ ختم ہو گی میں ان سے ملوں گا۔انہوں نے پریس کانفرنس کے دوران اعلان کیا کہ اس موقع کی مناسبت سے اعلان کرتا ہوں کہ مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف نے وزیراعلیٰ پنجاب کے لئے مریم نواز کو نامزد کر دیا ہے ۔ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ میں اپنے لیڈر سے درخواست کروں گا کہ وہ وزیر اعظم کا عہدہ قبول کریں۔