کراچی(خبر نگار) وزیراعظم شہباز شریف نے وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کو صوبے کے مالی مسائل حل کرنے کی یقین دہانی کرا دی ہے۔
وزیراعظم آج ایک روزہ دورے پر کراچی پہنچے تھے جہاں گورنر سندھ کامران خان ٹیسوری اور وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے وزیر اعظم کا استقبال کیا۔
وزیراعظم نے مزار قائد پر حاضری دی، پھولوں کی چادر چڑھائی، فاتحہ خوانی کی اور ملک کی ترقی و خوشحالی کے لیے دعا کی۔
مزار قائد پر حاضری کے بعد وزیراعلیٰ مراد علی شاہ کا وزیراعظم کے ساتھ وزیراعلیٰ ہاؤس میں ون ٹو ون اجلاس ہوا جس میں مراد علی شاہ نے وزیر اعظم سے سندھ اور وفاقی حکومت کے درمیان ترقیاتی کاموں اور دیگر مسائل پر بات چیت ہوئی۔
وزیراعلیٰ سندھ نے وزیراعظم کے ساتھ ڈائریکٹ کٹوتیوں کے بعد فنڈز کی واپسی نہ ہونے پر بھی بات کی جس پر وزیراعظم نے مراد علی شاہ کو تمام مسائل مل بیٹھ کر حل کرنے کی یقین دہانی کرائی۔
وزیراعظم نے کہا کہ ہم مل جل کر عوام کے مسائل ترجیحی بنیادوں پر حل کریں گے۔ملکی ترقی کے لئے ناپسندیدہ فیصلے کرنا ہوں گے
بعدازاں، وزیراعظم شہباز شریف کی صدارت وزیراعلیٰ ہاؤس میں وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ، اُن کی کابینہ اراکین اور ٹیم کے ساتھ اجلاس ہوا جس میں وفاقی وزراء احسن اقبال، خالد مقبول، اویس لغاری، اورنگزیب، مصدق ملک، جام کمال، عطاء اللہ تارڑ اور قیصر شریک تھے۔
وزیر اعلیٰ سندھ کے ساتھ صوبائی وزراء شرجیل انعام میمن، ناصر شاہ، سعید غنی، جام خان شورو، میئر کراچی مرتضیٰ وہاب، چیف سیکریٹری آصف حیدر شاہ، وزیراعلیٰ سندھ کے پرنسپل سیکریٹری آغا واصف اور دیگر سیکریٹریز شریک ہوئے۔
وزیراعلیٰ نے وزیراعظم کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ اب سندھ کے مسائل ترجیحی بنیادوں پر حل ہوں گے اور وزیراعظم بڑے مسائل کو جلد حل کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔
بریفنگ میں وزیراعلیٰ نے بتایا کہ 2022 کے سیلاب نے تباہی پھیلائی تھی اور سیلاب کی تباہ کاریوں کے بعد تعمیر نو کا مرحلہ شروع ہوا، جنیوا کنوینشن میں اتفاق ہوا تھا کہ 70 فیصد فنڈ ڈونر ایجنسیز فراہم کریں گی جبکہ بقایا 30 فیصد فنڈنگ وفاقی حکومت اور سندھ حکومت مہیا کریں گی۔ ڈونر ایجنسیز نے 557.79بلین روپے دیے اور سندھ حکومت نے 18.25 بلین روپے اپنی جانب سے مہیا کیے۔
انہوں نے کہا کہ سیلاب متاثرین کے گھروں کی تعمیر 500ملین ڈالر کا پراجیکٹ ہے، سندھ حکومت نے اپنے 25 بلین روپے شیئر جاری کیے لیکن وفاقی حکومت نے فنڈز نہیں دیے۔ اسی طرح، اسکول کی تعمیر کا پراجیکٹ 11917ملین روپے کا ہے، وفاقی حکومت نے 2بلین روپے کا وعدہ کیا لیکن ابھی تک فنڈز جاری نہیں ہوئے۔ گذشتہ 4 سالوں میں نئے اسکیمز کے حوالے سے وفاق نے سندھ کو نظر انداز کیا۔
وزیراعلیٰ نے بتایا کہ 23-2022 میں وفاقی حکومت نے روڈ سیکٹر میں پنجاب کو 51 بلین روپے کے 21 نئے منصوبے دیے اور سندھ کو 5.4 بلین روپے کی اسکیمیں دیں جبکہ کے پی کے کو 68 بلین روپے کے 9 پراجیکٹس دیے گئے۔ اس طرح سال 21-2020 اور 22-2021 میں بھی سندھ کو دیگر صوبوں کی نسبت کم اسکیمیں دی گئیں۔
انہوں نے بتایا کہ اس وقت سندھ میں 144.743 بلین روپے کی 19 اسکیمیں جاری ہیں اور ان اسکیموں پر وفاقی حکومت نے 53.124 بلین رکھے ہیں لیکن خرچ صرف 12 بلین روپے ہوئے ہیں، 19 اسکیموں میں سے 11 اسکیموں پر ایک روپیہ بھی خرچ نہیں ہوا۔
سندھ کے سی ڈی ڈبلیو پی اور ایکنیک میں پراجیکٹس منظوری کے لیے کافی وقت سے پڑے ہیں، کے فور کی آگمنٹیشن کی منظوری 2022 سے سی ڈی ڈبلیو پی میں رُکی ہوئی ہے جبکہ اسکول بحالی پراجیکٹ، کلک پروجیکٹ، سندھ بیراج پراجیکٹ، سالڈ ویسٹ پراجیکٹ بھی وفاقی حکومت کے پاس منظوری کے لیے پڑے ہیں۔
اس موقع پر، وزیراعلیٰ سندھ نے وزیر پلاننگ احسن اقبال سے درخواست کی کہ اپروول کا کام تیز کروا دیں۔ انہوں نے بتایا کہ سندھ حکومت این ایچ اے کو انڈس ہائی وے کی تعمیر کے لیے 7 بلین روپے 2017 میں دے چکی ہے لیکن 2017 سے ابھی تک سہیون جامشورو روڈ نہیں بن پایا۔ وزیراعلیٰ سندھ نے این ایچ اے چیئرمین کو سیہون جامشورو روڈ فوری مکمل کرنے کی ہدایت کی۔
وزیراعلیٰ سندھ نے وزیر اعظم سے کے سی آر پراجیکٹ 2016 پر بھی بات کرتے ہوئے کہا کہ کراچی کے لیے کے سی آر بہت اہم ہے، میری وزیراعظم صاحب سے درخواست ہے کہ کے سی آر کا رائٹ آف وے کے مسائل حل کروا کے پراجیکٹ شروع کروا کر دیں، وزیراعظم کے سی آر کو ترجیح دے کر فریم ورک ایگریمنٹ کی ایگزیکیوشن کروائیں گے۔
بریفنگ کے بعد وزیراعظم نے سندھ کو پی پی پی پراجیکٹ پر اس کی کارکردگی کو زبردست انداز سے سراہتے ہوئے کہا کہ پی پی پی پراجیکٹ کی شروعات سندھ نے کامیابی سے کی ہے۔ وزیراعظم نے وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کو سراہنے کے لیے اجلاس میں تالیاں بجوائیں۔
وزیراعظم نے کہا کہ سندھ کی ترقی پاکستان کی ترقی ہے، میرا فرض ہے کہ میں اس رابطے کو مضبوط بناؤں مل کر، بعض اوقات ہمیں ایسے فیصلے کرنے ہوں جو ہمیں خود پسند نا ہوں پر ملک کی ترقی کے لیے وہ کرنے ہوں گے۔