اسلام آباد(خبر نگار)بحریہ ٹائون کے سربراہ ملک ریاض اور نیب آمنے سامنے گئے ہیں،ملک ریاض نے بحریہ ٹائون دفتر کی ویڈیو شیئر کرتے ہوئے عوامی رابطہ کی ویب سائٹ ایکس پر ٹوئٹ کرتے ہوئے کہا کہا کہ ملک ریاض وعدہ معاف گواہ نہیں بنے گا۔۔جو چاہے مجھ پر ظلم کرو۔وہ کسی کے خلاف وعدہ معاف گواہ نہیں بنیں گے چاہے ان پر جو بھی ظلم ہو۔گزشتہ روز ملک ریاض نےاسٹیبلشمنٹ کا نام لئے بغیر ایک ٹوئٹ کے دوران کہا کہ مجھے وعدہ معاف گواہ بننے کیلئے دبائو ڈالا جارہا ہے
گزشتہ روز نیب کی ٹیم نے بحریہ ٹائون کے دفتر پر چھاپہ مارا ،آس پاس کے علاقوں کو سیل کر دیا گیا ،اس دوران صحافیوں پر بھی تشدد کیا ،نیب نے ملک کا ریاض کا تمام ریکارڈ حاصل کرلیا ،نیب نے بحریہ ٹائون کے تمام پلاٹوں اور جائیدادوں کا ریکارڈ بھی لے گئی
ذرائع نے انکشاف کیا کہ نیب نے القادر ٹرسٹ میں کوئی شواہد ابھی تک نہیں لائی جا سکی ،چھاپے کے دوران کے القاعدہ ٹرسٹ کا کوئی ریکارڈ نہ مل سکا ۔صرف لوگوں کی فائلیں ملیں جو ساتھ لے گئے
یاد رہے کہ یہ وہی نیب ہے جو نواز شریف اور آصف علی زرداری کو مختلف کیسوں میں جیل بھجوا چکی ہے تاہم ان کے خلاف کوئی ٹھوس ثبوت فراہم نہیں کئے جا سکے
ملک ریاض نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کے دفاتر میں چھاپے کے بعد پانچ ہزار سے زائد اہم پراجیکٹ فائلیں، دفتری ریکارڈ اور دیگر چیزیں ضبط کر لی گئی ہیں جب کہ چھاپہ مار ٹیموں نے توڑ پھوڑ کے علاوہ سیکیورٹی عملے کو ہراساں کرنے کے بعد انہیں اغوا کر لیا ہے۔
بحریہ ٹاؤن کے دفتر میں چھاپوں کی بعض ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہیں اور ان میں سے ایک ویڈیو ملک ریاض نے خود جاری کی ہے جس میں سادہ لباس میں ملبوس افراد کو چھان بین کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ملک ریاض نے کہا کہ انہیں دباؤ میں لینے کی کوشش کی جا رہی ہے اور اس کے پس پردہ ریاستی ادارے ہیں اور ان کے یہ ظلم کسی بھی سیاسی اقتدار کی جدوجہد میں فریق نہ بننے کے اعلان کے بعد سے ہو رہا ہے۔
یاد رہے کہ ملک ریاض اپنے خلاف سرکاری اداروں کی مبینہ کارروائیوں اور مظالم کا دعویٰ ایسے موقع پر کر رہے ہیں جب انہیں القادر ٹرسٹ اور 190 ملین پاؤنڈ کیسز کا سامنا ہے اور ان دونوں کیسز میں وہ اشتہاری قرار دیے جا چکے ہیں۔ عدالت ان کی جائیداد ضبط کرنے کے احکامات بھی دے چکی ہے۔
ملک ریاض پر الزام ہے کہ انہوں نے برطانیہ میں ایک مقدمے میں تصفیہ کیا تھا جس کے بعد برطانوی کرائم ایجنسی نے ان سے حاصل 190 ملین پاؤنڈ کی رقم حکومتِ پاکستان کی ملکیت قرار دیا تھا۔ یہ رقم پاکستان کے قومی خزانے میں پہنچنے کے بجائے سپریم کورٹ کے اُس اکاؤنٹ تک پہنچی تھی جس میں ملک ریاض بحریہ ٹاؤن کراچی کے مقدمے میں سپریم کورٹ کو 460 بلین روپے ایک تصفیے کے تحت قسطوں میں ادا کر رہے تھے۔
حکومت نے یہ الزام عائد کیا تھا کہ یہ معاملہ ملک ریاض اور 2019 میں اس وقت کی عمران خان کی حکومت کے درمیان طے پانے والے ایک خفیہ معاہدے کا نتیجہ تھا۔حکومت کا دعویٰ ہے کہ مذکورہ معاہدے کے عوض بحریہ ٹاؤن نے مارچ 2021 میں ضلع جہلم کے علاقے سوہاوہ میں 458 کنال اراضی القادر یونیورسٹی ٹرسٹ کو عطیہ کی جس کے ٹرسٹی عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی ہیں۔
بحریہ ٹاؤن کے دفاتر پر مبینہ چھاپے ایسے موقع پر مارے جا رہے ہیں جب 190 ملین پاؤنڈ کیس میں گواہان کے بیانات قلم بند کیے جا رہے ہیں۔پاکستان تحریکِ انصاف کا دعویٰ ہے کہ حکومت اور ریاستی اداروں کی جانب سے ملک ریاض کو عمران خان کے خلاف وعدہ معاف گواہ بننے کے لیے دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔