اسلام آباد(سٹاف رپورٹر) ملک میں تیل اور گیس کے شعبے کو فروغ دینے کے لیے حکومتی رکاوٹوں کو دور کیا جائے اور پیٹرولیم سیکٹر کی ڈی ریگولیشن کی جائے یہ بات مقررین نے آئل اینڈ گیس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ یہ کانفرنس انرجی اپڈیٹ کے تحت وزارت توانائی پیٹرولیم ڈویژن اور اوگرا کے تعاون سے منعقد کی گئی تھی۔ مقررین کا کہنا تھا کہ تمام اسٹیک ہولڈرز، حکومت اور ریگولیٹرز مل کر قومی مفاد میں ٹھوس حکمت عملی مرتب کریں تاکہ اس شعبے کے فروغ میں رکاوٹیں پیدا کرنے والے مافیاز کا مقابلہ کیا جا سکے۔
اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) کے چیئرمین مسرور خان نے کہا کہ اوگرا ریگولیٹری فریم ورک کے ذریعے انڈسٹری کو سہولیات فراہم کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اوگرا صنعت کو ابھرتے ہوئے چیلنجز سے نمٹنے میں مدد فراہم کر رہا ہے۔ چیئرمین اوگرا کا کہنا تھا وائٹ آئل پائپ لائن کا استعمال صرف 40 فیصد ہے، ملک میں 3 ہزار ڈبہ پیٹرول اسٹیشن چل رہے ہیں، ڈبہ پیٹرول پمپس کو ختم کرنے کیلئے اقدامات کی ضرورت ہے۔ مسرور خان کا کہنا تھا پاکستان میں آئندہ 5 سالوں میں ایل پی جی کے استعمال میں زبردست اضافے کا امکان ہے، اس وقت ایل پی جی کا ملکی انرجی مکس میں حصہ 1.3 فیصد ہے جو آئندہ 5 سالوں میں 5 فیصد سے تجاوز کر جائے گا۔
چیئرمین اوگرا کا کہنا تھا ایل پی جی کی اسٹوریج، ٹرانسپورٹیشن اور معیاری سلنڈر میں سرمایہ کاری کے وسیع مواقع ہیں، ملک میں 200 کلوگرام کے کمرشل سلنڈر متعارف کرانے کی ضرورت ہے۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا توانائی کے بحران کا سب کو علم ہے مگر بروقت فیصلے نہیں کیے جاتے، مسائل کو حل کرنے کیلئے سنجیدہ کوششوں کی ضرورت ہے۔ شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا ایل پی جی کا استعمال اس لیے بڑھ رہا ہے کہ گیس ختم ہو رہی ہے، پاکستان میں ایک پیٹرول پمپ لگانے میں 3 سال لگ جاتے ہیں، ریفائنری پالیسی 8 سال سے لٹکی ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مسائل کا سب کو علم ہے اب فیصلوں کا وقت ہے، سرکاری افسران سرمایہ کاروں پراعتماد نہیں رکھتے، وہ ان کو پیسہ بنانے والے سمجھتے ہیں، توانائی کے شعبے کی ڈی ریگولیشن کی ضرورت ہے، گیس کی قیمت یکساں ہونی چاہیے۔ چیئرمین اے جی گروپ اقبال زیڈ احمد نے توانائی کے شعبے میں بہتری لانے کے لیے افسر شاہی کی رکاوٹوں کو دور کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے ملک میں توانائی کے شعبے کو فروغ دینے کے لیے اجتماعی فیصلے پر بھی زور دیا۔
انہوں نے ایل پی جی کی درآمد پر توجہ دینے کی بجائے مقامی پیداوار کو فروغ دینے کی تجویز دی۔ ایم ڈی اٹک ریفائنری لمیٹڈ عادل خٹک نے کہا کہ تیل کی اسمگلنگ پر قابو پانے کے لیے سخت اقدامات کرنے پر زور دیا اس سے قومی خزانے کو بھاری نقصان ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ تیل کی اسمگلنگ کو روکنے کے لیے کچھ اقدامات کیے گئے ہیں لیکن اس سلسلے میں مزید کوششیں کی جانی چاہئیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ گزشتہ کئی سالوں میں ملک میں کوئی نئی آئل ریفائنری نہیں لگائی گئی۔ انہوں نے مزید کہا کہ آئل ریفائنری کو اپ گریڈ کرنے کے لیے بھی بہت زیادہ سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ آرگنائزنگ کمیٹی کے چیئرمین محمد نعیم قریشی نے کہا کہ کانفرنس کا مقصد توانائی کے شعبے میں پاکستان کی صلاحیت کو ظاہر کرنا، ملکی پیداوار، تلاش اور پائیدار طریقوں میں پیش رفت پر توجہ مرکوز کرنا تھا۔ انہوں نے کہا کہ کانفرنس میں توانائی کے تحفظ کو بڑھانے، درآمدی انحصار کو کم کرنے اور توانائی کے مقامی وسائل کو فروغ دینے کی حکمت عملیوں کا جائزہ لیا گیا۔ دیگر مقررین میں سینئر ای ڈی او جی ڈی سی ایل شہزاد صفدر، علی طلحہ تمیمی، اندریز ایم کازورووسکی، ارشد حسین پارٹنر انرجی ریسورس مینجمنٹ بیرسٹر سارہ کاظمی، حلیمہ خان، سرمد حسن شریف، پی ای پی ایل؛ رضی الدین رازی؛ شاہد کریم، فرست شاہ، ڈاکٹر سعید جدون اور دیگر نے بھی خطاب کیا۔ بعد ازاں مقررین اور سپانسرز میں یادگاری نشانات تقسیم کیے گئے۔