سپریم کورٹ کا فیصلہ مخصوص طبقہ کیلئے ہے،پارلیمنٹ اور الیکشن کمیشن کے اختیارات میں مداخلت کسی طور درست نہیں، انجینئر قمر الالسلام ٕا ملک ابرار

اسلام آباد(نیوز رپورٹر)انجینئر قمرالاسلام نے کہا ہے کہ مخصوص نشستوں پر عدالتی فیصلے سے بادی النظر میں محسوس ہوتا ہے کہ عدلیہ کا جھکاؤ آئین کی تشرییح کی بجائے آئین کی تدوین پر ہے ،تاریخ شاہد ہے کہ جب آئین سے تجاوز کیا گیا ملک میں مزید خرابی پیدا ہوئی ، آئین و قانون سازی پارلیمان اور انتخابات کا انعقاد الیکشن کمیشن کی زمہ داری ہے

ان خیالات کا اظہار انہوں نے ملک ابرار کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا ،انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ اور الیکشن کمیشن کے اختیارات میں مداخلت کسی طور درست نہیں، سپریم کورٹ کے فیصلے سے پورے ملک میں اگر ایک مخصوص طبقہ خوش ہے تو دوسری طرف قوم مایوسی اور حیرت میں بھی مبتلا ہے، قوم ہمیشہ آئین و قانون کے مطابق فیصلوں کی توقع رکھتی ہے، جو پارٹی پٹیشن میں فریق ہی نہیں تھی فیصلہ اس کے حق میں دیا گیا،اس کی خواہشات کے مطابق بغیر مانگے بہت کچھ دے دیا گیا،

اس موقع پر ملک ابرار نے کہا کہ حکمران جماعت سے تعلق ہونے کے باوجود عدالتی فیصلے پر سرتسلیم خم ہے،یہاں اب مسئلہ الیکشن کمیشن اور سپریم کورٹ کا ہے ،جہاں پر کوئی ادارہ آئین و قانون سے تجاوز کرتا ہے وہاں خرابی پاکستان کے لئے پیداہوتی ہے، آئین و قانون سازی پارلیمان کاکام ہے آئین کی تشریح عدلیہ کی ذمہ داری ہے ۔اندرونی و بیرونی سرحدوں کا تحفظ قانون نافذ کرنے والے اداروں کا کا م ہے، آئین پاکستان ملک میں انتخابات کا تمام تر اختیار الیکشن کمیشن کو دیتا ہے، آئین کی تشریح تو عدلیہ کا کام ہے لیکن آئین کی تدوین عدلیہ نہیں کر سکتی ،مخصوص نشستوں پر عدلیہ کے فیصلے سے یہ نظر آتا ہے عدلیہ کا جھکاؤ آئین کی تشریح کی بجائے آئین کی تدوین پر ہے، 2022میں بھی فلور کراسنگ پر نااہلی کی بجائے آئین کی تدوین اور تشریح کی گئی، اس طرح حالیہ فیصلے میں وہ کچھ دیا گیا جو مانگا ہی نہیں گیا، جن افراد کو مخصوص نشستیں دینے کی کوشش کی گئی

ان کے کاغذات میں نہ تو کسی پارٹی کا نام ہے اور نہ ہی پارٹی ٹکٹ جمع کروایا گیا، پاکستان کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے لئے ضروری ہے کہ تمام ادارے اپنی آئینی حدود میں رہیں، آئین لکھنا یا اس میں ترمیم کرنا پارلیمنٹ کا کام ہے، اور پارلیمنٹ کے اختیارات میں مداخلت کسی طور درست نہیں، ہماری بدقسمتی ہے کہ ملک کو بار بارکسی نی کسی طرح لہو لہان کردیا جاتا ہے ،2018کے بعد ملک میں جو حالات پیدا ہوئے اس سے نہ صرف ملکی معیشت تباہ بلکہ اداروں کی حیثیت و وقعت کے اوپر شرمناک حملے کئے گئے ، اگرچہ عدلیہ اپنے فیصلوں میں آزاد ہے لیکن جب ایک پارٹی کسی کیس میں فریق ہی نہیں تو اس کے حق میں کیسے فیصلہ دیا جا سکتا ہے

، عوام سے اپیل ہے کہ وہ عدالتی فیصلے پر ردعمل میں کسی احتجاج سے باز رہیں ، یہاں ابھی الیکشن کمیشن اور عدلیہ کے آئینی اختیارات کا معاملہ ہے ،الیکشن کمیشن اس کی بہتر قانونی پیروی کرے گا، اگرچہ یہ عوامی امنگوں کے برعکس فیصلہ ہے لیکن عوام صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں، متعلقہ اداروں سے بھی اپیل ہے کہ وہ آئین و قانون کی درست تشریح کر کے عوام میں پائی جانے والی بے چینی اور بدگمانی دور کریں، موجودہ حالات میں اس فیصلے کی درست تشریح ہو جانی چاہئے ورنہ ملک میں مزید عدم استحکام پھیلے گا