حکومت کے پاس ایسا کوئی اختیار نہیں جس سے کسی سیاسی جماعت پر پابندی لگائی جائے، شاہد خاقان عباسی

اسلام آباد(نیوز رپورٹر)سابق وزیر اعظم اورپاکستان عوام پارٹی کے رہنما شاہد خاقان عباسی نےحکومت کی طرف سے پی ٹی آئی پر پابندی کے فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت کے پاس ایسے کوئی اختیار نہیں کہ کسی سیاسی جماعت پر پابندی لگائے، پی ٹی آئی پر پابندی سے مزید بگاڑ پیدا ہو گا، حکومت کو آرٹیکل 6 لگانے کا بہت شوق ہے ،یہ کل موجودہ حکمرانوں پر بھی لگ سکتاہے،گارنٹی دیتا ہوں کہ یہ آرٹیکل چھ نہیں لگاسکتے، بات سپریم کورٹ میں جائے گی،حکومت کا اپنا مینڈیٹ مشکوک ہے، اگر کسی پاس نمبر زیادہ ہیں تو وہ عدم اعتماد کی تحریک پیش کردے، ضروری نہیں کہ جو غلطیاں بانی پی ٹی آئی نے کیں وہ ہم بھی دہرائیں، آج ملک کو جوڑنے کی ضرورت ہے، ایک میز پر بیٹھنا پڑے گا،فون ٹیپ کرنے کا معاملہ انتہائی پیچیدہ ہے،موبائل کال ریکارڈنگ کے بہت خطرناک اثرات ظاہر ہوں گے، ایسی کیا عجلت تھی کہ ایک دن میں نوٹیفکیشن جاری ہو گیا، اس حساس معاملے کو پارلیمنٹ میں کیوں نہیں لایا گیا؟نیشنل سیکیورٹی ساری دنیا میں ہوتی ہے لیکن کوئی ملک ایسا اقدام نہیں کرتا، دنیا میں ڈیٹا سب سے زیادہ اہمیت اختیار کر گیا ہے، ایسی صورت میں دنیا کی کوئی کمپنی پاکستان میں کاروبار نہیں کرے گی، جہاں ڈیٹا کمپرومائز ہو وہاں کون کاروبار کرے گا؟ آئین نہیں ہوگا تو ملک اور جمہوریت نہیں چلے گی،آرگنائزنگ کمیٹی ممبر فاطمہ عاطف،ڈاکٹر ظفر مرزاو دیگر کے ہمراہ نیشنل پریس کلب اسلام آبادمیں پریس کانفرنس کرتے ہوئے شاہد خاقان عباسی کا مزید کہنا تھا کہ حکومت کو احساس نہیں موبائل ہماری زندگی کی ضروت بن چکا ہے، حکومت نے 8 جولائی کو ایک ایس آر او جاری کیا، ایس آر او کے گریڈ 18 کے آفیسر کو اختیارات دے دئیے گئے،گریڈ 18 کا آفیسر پی ٹی اے ایکٹ کے تحت کال ٹریس کر سکتا ہے،جب یہ ایکٹ آیا تو اس کا مطلب پرائیوٹائزیشن کو فروغ دینا تھا،اب جو اختیارات دئیے گئے ہیں یہ آئین کے خلاف ہیں،قدغن لگانے کے ساتھ سیف گارڈ بھی فراہم کئے جاتے ہیں، کوئی لاء بھی قانون سے متصادم نہیں ہو سکتا،جو نوٹیفکیشن جاری کیا گیا وہ آئین و قانون کی خلاف ورزی ہے، آرٹیکل 14 تحفظ فراہم کرتا ہے اور آرٹیکل 19 آزادی اظہارِ رائے دیتا ہے، فون ٹیپ کرنے کا معاملہ انتہائی پیچیدہ ہے، ایسی کیا عجلت تھی کہ ایک دن میں نوٹیفکیشن جاری ہو گیا،کب یہ کابینہ کے ایجنڈے پر آیا، اس حساس معاملے کو پارلیمنٹ میں کیوں نہیں لایا گیا؟ گریڈ 18 کے افسر کو لامحدود اختیارات دینا سمجھ سے بالاتر ہے، حکومت جب سپریم کورٹ کے فیصلوں پر تنقید شروع کر دے تو یہ مناسب بات نہیں، پریس کانفرنس کر کے کیا عدالتوں سے تصادم چاہتے ہیں؟نیشنل سیکیورٹی ساری دنیا میں ہوتی ہے لیکن کوئی ملک ایسا اقدام نہیں کرتا، یہاں کوئی پوچھنے والا نہیں ہے، موبائل کال ریکارڈنگ کے بہت خطرناک اثرات ظاہر ہوں گے،جو مرضی ہے وہ کر لیتے ہیں، پی ٹی اے کو جو اختیار دیا گیا یہ بہت پیچیدہ معاملہ ہے، فون کے ذریعے بات بھی ہوتی ہے اور کاروبار بھی ہوتا ہے، دنیا میں ڈیٹا سب سے زیادہ اہمیت اختیار کر گیا ہے، ایسی صورت میں دنیا کی کوئی کمپنی پاکستان میں کاروبار نہیں کرے گی، جہاں ڈیٹا کمپرومائز ہو وہاں کون کاروبار کرے گا؟ فون ہماری کمیونیکشن،کاروبار ،انٹرٹینمنٹ اور سکیورٹی بھی ہے،شاہد خاقان نے کہا کہ ایک اور قانون بھی موجود ہے جو پیپلز پارٹی نے 2013ء کے آخر میں بنایا تھا اور اب پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی حکومت ہے جنہوں ںے نوٹی فکیشن جاری کردیا ہے، 2013ء کا ایکٹ ایک تفصیلی قانون ہے جس میں ٹیلی فون ٹیپنگ کا پورا میکنزم دیا گیا ہے اس میں 39 سیکشن ہے جس میں آئی ایس آئی، آئی بی، پولیس اور دیگر ملٹری اداروں کو یہ رسائی دی گئی تھی اس کے لیے آغاز گریڈ بیس کا افسر شروع کرتا تھا اس کے بعد باقاعدہ پراسیس سے اجازت ملتی تھی،اس قانون کے تحت فون ٹیپ کرنے کی اجازت ہائی کورٹ کا جج دیتا تھا جو کہ ساٹھ دن سے زیادہ نہیں ہوتی تھی، پھر اس کیس کی کابینہ کی تین رکنی کمیٹی جائزہ لیا کرتی تھی جو کہ ایک تفصیلی میکنزم تھا، آج ایک نوٹی فکیشن کے ذریعے گریڈ اٹھارہ کے افسر کو سب اختیار دیدیئے ہیں اس طرح کے نظام دنیا میں نہیں چلتے،ملک میں پارلیمان کا پلیٹ فارم گالم گلوچ کے لیے استعمال ہوتا ہے، شاہد خاقان عباسی کا یہ بھی کہنا تھا کہ پی ٹی آئی پر پابندی سے مزید بگاڑ پیدا ہو گا، حکومت کو آرٹیکل 6 لگانے کا بہت شوق ہے ، یہ آرٹیکل کل کو موجودہ حکمرانوں پر بھی لگ سکتاہے، گارنٹی دیتا ہوں کہ یہ آرٹیکل چھ نہیں لگاسکتے، بات سپریم کورٹ میں جائے گی، مخصوص نشستوں سے متعلق فیصلے پر کہا کہ ججز نے جو فیصلہ دیا وہ آسان فیصلہ ہے قانون واضح ہے کہ جتنی سیٹیں جس نے جیتی ہیں اتنی سیٹیں اس کا حق ہے، اس فیصلے سے سپریم کورٹ نے اپنے کچھ گناہوں کو دھویا ہے، پارلیمانی و جمہوری اقدار کے مطابق ایسا ہی ہوتا ہے، یہ بات پیپلز پارٹی اور ن لیگ بخوبی جانتے ہیں مگر فیصلوں پر اگر حکومت پریس کانفرنس کرے تو اچھی بات نہیں بات کرنا ہے تو پارلیمنٹ میں کریں،اگر کسی پاس نمبر زیادہ ہیں تو وہ عدم اعتماد کی تحریک پیش کردے،حکومت کا اپنا مینڈیٹ مشکوک ہے، سیاسی جماعتوں کا مقابلہ صرف پولنگ اسٹیشنز پر ہوتا ہے، پولنگ اسٹیشنزسے باہر جائیں گے تو معاملات خراب ہوں گے، نیشنل ازم و جمہوریت نہیں ہوگی تو کچھ نہیں ہوگا،جب اسمبلی میں قانون توڑا گیا تو اس وقت میں اسمبلی کا حصہ تھا میرا موقف تھا کہ قانون توڑا گیا ہے وزیراعظم اسپیکر، صدر ملوث تھے اس وقت سازش ہوئی تھی مگر اب بہت دیر ہوچکی ہے تین سال کا عرصہ گزر چکا ہے، گارنٹی دیتا ہوں کہ یہ آرٹیکل چھ نہیں لگاسکتے، بات سپریم کورٹ میں جائے گی اگر شواہد نہ دے سکے تو سپریم کورٹ کبھی بھی اجازت نہیں دے گی،ضروری نہیں کہ جو غلطیاں بانی پی ٹی آئی نے کیں وہ ہم بھی دہرائیں، آج ملک کو جوڑنے کی ضرورت ہے، ایک میز پر بیٹھنا پڑے گا۔