مبارک ثانی کیس فیصلہ میں حکومتی اپیل منظور،3پیرا گراف حذف کردیئے

مبارک ثانی کیس فیصلہ میں حکومتی اپیل منظور،3پیرا گراف حذف کردیئے

اسلام آباد۔ سپریم کورٹ آف پاکستان نے مبارک ثانی نظرثانی فیصلے میں اصلاحات کے حوالے سے وفاقی حکومت کی درخواست کو منظور کرتے ہوئے نظرثانی فیصلے کے پیراگراف نمبر 7 ،42اور49 کو حذف کر دیا گیا

عدالتی حکم نامے میں بیان کیا گیا ہے کہ نظرثانی شدہ پیراگراف کو عدالتی مثال کے طور پر پیش نہیں کیا جا سکتا۔ سپریم کورٹ نے نظرثانی فیصلے کے پیراگراف 7، 42 اور 49 سی کو حذف کرنے کا فیصلہ کیا۔

عدالت میں علماء نے تینوں پیراگراف حذف کرنے کی درخواست کی تھی، اور دوران سماعت مولانا فضل الرحمان نے رائے دی تھی کہ سپریم کورٹ کو صرف خود کو ضمانت تک محدود رکھنا چاہیے۔

عدالتی حکم میں کہا گیا ہے کہ وفاقی حکومت نے فیصلے میں اصلاح کے لیے عدالت سے رجوع کیا، اور اسلامی نظریاتی کونسل کی جانب سے بھیجی گئی سفارشات کا بھی جائزہ لیا گیا۔

قبل ازیں، سپریم کورٹ نے مبارک ثانی کیس میں پنجاب حکومت کی نظرثانی درخواست پر مفتی تقی عثمانی، مولانا فضل الرحمان اور دیگر علماء کی مدد لی تھی۔ چیف جسٹس نے علماء سے غلطیوں کی نشاندہی کرنے کی درخواست کی، اور علماء نے فیصلہ دوبارہ تحریر کرنے یا اسے کالعدم قرار دینے کا مطالبہ کیا۔

سپریم کورٹ میں مبارک ثانی کیس کے فیصلے کے خلاف پنجاب حکومت کی دائر کردہ نظرثانی اپیل پر سماعت شروع ہوئی۔ ترکیہ میں موجود مفتی تقی عثمانی ویڈیو لنک کے ذریعے شریک ہوئے، جبکہ مولانا فضل الرحمان، اٹارنی جنرل اور دیگر عدالت میں پیش ہوئے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ جب فیصلے میں نظرثانی کی گئی تو پارلیمنٹ اور علماء نے وفاقی حکومت سے رابطہ کیا، اور کہا گیا کہ سپریم کورٹ سے رجوع کیا جائے۔ اسپیکر قومی اسمبلی کی طرف سے خط موصول ہوا تھا اور وزیراعظم کی جانب سے بھی ہدایات دی گئی تھیں، اس لیے دیوانی ضابطے کے تحت درخواست دی گئی ہے۔

اٹارنی جنرل نے بتایا کہ فریقین کو نوٹسز جاری کیے گئے، اور وہ عدالت میں اور ویڈیو لنک کے ذریعے پیش ہوئے ہیں، کیونکہ معاملہ مذہبی ہے، اس لیے علمائے کرام کو سنا جائے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ مجھے کہنا نہیں چاہیے، مگر مجبور ہوں، میں ہر نماز میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ مجھ سے کوئی غلط فیصلہ نہ کروائے۔ انسان اپنے قول و فعل سے پہچانا جاتا ہے، پارلیمان کی بات اہم ہے، اور میں نے آئین کی 50 ویں سالگرہ پر پارلیمنٹ کا دورہ کیا۔

سپریم کورٹ نے موجودہ علماء، مولانا فضل الرحمان، مفتی شیر محمد، اور دیگر علماء کی مدد لینے کا فیصلہ کیا، جبکہ ابو الخیر محمد زبیر جماعت اسلامی کے فرید پراچہ بھی عدالت کی معاونت کریں گے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے مفتی تقی عثمانی سے بھی معاونت کی درخواست کی تھی، وہ ترکیہ میں ہیں، اور مفتی منیب الرحمان کو آنے کے لیے کہا تھا، مگر وہ نہیں آئے۔ مفتی منیب کے نمائندے نے بتایا کہ انہیں مفتی منیب نے بھیجا ہے۔

سماعت کے دوران، علامہ تقی عثمانی نے عدالت کی معاونت کرتے ہوئے 29 مئی کے فیصلے سے دو پیراگراف حذف کرنے کی درخواست کی۔ انہوں نے کہا کہ پیراگراف 7 اور 42 کو حذف کیا جائے۔

مفتی تقی عثمانی نے کہا کہ پیراگراف 42 میں تبلیغ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے، یعنی غیر مشروط اجازت دی گئی۔ چیف جسٹس نے سیکشن 298 سی پڑھ کر سنایا، جس کے مطابق غیر مسلم کو مسلمان ظاہر کرتے ہوئے تبلیغ کی اجازت نہیں ہے، قادیانی اقلیت میں ہیں لیکن خود کو غیر مسلم تسلیم نہیں کرتے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ میں معذرت چاہتا ہوں، وضاحت کرنا چاہتا ہوں کہ جنہیں نوٹس کیا تھا، ان کی جانب سے ہمیں بہت ساری دستاویزات ملیں، اگر ان سب کا بغور جائزہ لیا جاتا تو شاید فیصلے کی پوری کتاب بن جاتی، ان تمام دستاویزات کو دیکھ نہ سکنے کا قصور میرا ہے۔ عدالتی فیصلے میں جو غلطیاں اور اعتراضات ہیں، ان کی نشاندہی کریں، اگر کوئی بات سمجھ نہیں آئی تو ہم سوال کریں گے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہمارا ملک اسلامی ریاست ہے، اس لیے عدالتی فیصلوں میں قرآن و حدیث کے حوالے دیے جاتے ہیں، میں غلطی سے مبرا نہیں ہوں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ 6 فروری کے فیصلے کے بعد نظرثانی کا فیصلہ پیچھے رہ گیا ہے، اب ہمیں آگے کی طرف دیکھنا چاہیے۔ میرا موقف ہے کہ ہم امریکا اور برطانیہ کی مثالیں دیتے ہیں، ہمیں اپنی مثال کیوں نہ دیں؟ کوئی میٹرک کا امتحان نہ دے تو فیل ہونے کا خطرہ بھی نہیں ہوتا۔

مفتی تقی عثمانی نے کہا کہ آپ فیصلے میں طے شدہ مسائل سے زیادہ اصل مسئلہ پر توجہ دیں، پیراگراف سات میں لکھا گیا ہے کہ احمدی نجی تعلیمی ادارے میں تعلیم دے رہے تھے، جس سے تاثر ملتا ہے کہ وہ نجی تعلیمی اداروں میں تعلیم دے سکتے ہیں۔

بعد ازاں سماعت میں کچھ وقفہ کیا گیا، پھر سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو عدالتی معاون صاحبزادہ ابوالخیر زبیر نے دلائل دیے۔ انہوں نے کہا کہ آپ نے تمام راستے بند کر دیے ہیں، بڑی مشکل سے حیدرآباد سے یہاں پہنچا ہوں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کھوسہ صاحب! پارلیمنٹ بہت بااختیار ہے، پارلیمنٹ سپریم کورٹ کے فیصلے کو بھی ختم کر سکتی ہے اور آپ پارلیمنٹ سے فیصلہ ختم کروا سکتے ہیں۔

پروفیسر ساجد میر کے نمائندے حافظ احسان کھوکھر نے عدالت میں پیش ہو کر کہا کہ عدالت کو پیراگراف حذف کرنے کے بجائے نیا فیصلہ تحریر کرنا چاہیے، کیونکہ کوئی پیراگراف رہ جانے کی صورت میں مزید ابہام پیدا ہوگا، اور عدالت کو مبارک ثانی کیس میں اصلاح اپنے ابتدائی فیصلے سے شروع کرنی چاہیے۔

مولانا فضل الرحمان حافظ احسان کھوکھر کے نکتے کی حمایت میں روسٹرم پر آگئے اور کہا کہ مناسب یہی ہے کہ عدالت مبارک ثانی کیس میں دونوں فیصلوں کو کالعدم قرار دے، اور کسی ابہام کا فائدہ نہ اٹھائے، سب علماء اس تجویز سے متفق ہوں گے۔

جماعت اسلامی کے رہنما فرید پراچہ نے کہا کہ قادیانی خود کو غیر مسلم نہیں مانتے، اس لیے یہ مسئلہ پیدا ہوتا ہے، قادیانیوں کا اپنے آپ کو مسلمان کہنا جرم ہے، چاہے وہ تشہیر گھر کے اندر کریں یا باہر، وہ جرم ہے، قتل گھر کے اندر ہو یا باہر دونوں صورتوں میں جرم ہے، قادیانیوں کو مسلمانوں کی طرح اپنے عقائد رکھنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی، ہمیں عدالتی فیصلے کے پیرا سات سے اعتراض ہے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پوچھا کہ مفتی تقی عثمانی اور مولانا فضل الرحمان نے جو تفصیلات فراہم کی ہیں، اس کے علاوہ کوئی نئی بات ہے تو بتائیں۔

فرید پراچہ نے کہا کہ یہ صرف مبارک ثانی کیس کا معاملہ نہیں بلکہ سو سالہ جدوجہد اور تاریخ کا معاملہ ہے، عدالتی فیصلے کے پیراگراف 37، 38، 39، 40 اور 49 سی کا بھی دوبارہ جائزہ لیں۔

مذہبی اسکالر عطاء الرحمن نے کہا کہ کچھ چیزیں قابل تعریف ہیں اور ان کا ذکر ہونا چاہیے۔ عدالت عدالتی فیصلوں میں قرآن کی آیات کا حوالہ دیتی ہے، پریکٹس اینڈ پروسیجر کا معاملہ قابل تحسین ہے، شریعت اپیلیٹ بنچ کئی عرصے سے التوا میں تھا، اور مبارک ثانی کیس میں امید ہے کہ یہ آخری موقع ہوگا اور مناسب فیصلہ آئے گا۔

عطاء الرحمن نے کہا کہ قادیانیوں کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ آئین پاکستان کو بھی نہیں مانتے، اور ابھی بھی تفسیر صغیر کی تشہیر کر رہے ہیں۔

جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ سپریم کورٹ کو خود کو صرف ضمانت تک محدود رکھنا چاہیے تھا، آپ سپریم کورٹ میں دوسری بار نظرثانی کر رہے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ یہ دوسری نظرثانی نہیں ہے، جس پر فضل الرحمان نے کہا کہ پھر یہ نظرثالثی ہوگی، میں 72 سال کی عمر میں پہلی بار عدالت میں کھڑا ہوں۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ مولانا صاحب! ہم اتنے بھی برے نہیں ہیں، میرے والد کے انتقال پر آپ کے والد مفتی محمود ہمارے گھر تعزیت کے لیے آئے تھے۔

مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کے لیے پارلیمنٹ نے 1974ء میں کمیٹی بنائی، لیکن کمیٹی کے فیصلے کو پارلیمنٹ کی ویب سائٹ پر آج تک جاری نہیں کیا جا سکا۔ ہم نے پارلیمنٹ کو کچھ کہا تو یہ مداخلت سمجھی جائے گی۔