اسلام آباد ۔سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے چیئرمین سلیم مانڈوی والا نے کہا ہے کہ اسلامی بینکاری میں قرض کے لیے 25 سے 30 فیصد سود لیا جاتا ہے، جبکہ روایتی بینکاری میں یہ شرح 20 فیصد ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اسلامی بینکاری کے نام پر عوام سے دھوکہ ہو رہا ہے۔
بدھ کو سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کا اجلاس چیئرمین سلیم مانڈوی والا کی صدارت میں ہوا، جس میں ڈیپازٹ پروٹیکشن کارپوریشن ترمیمی بل 2024 پر بریفنگ دی گئی۔اجلاس کے دوران ڈپٹی گورنر اسٹیٹ بینک ڈاکٹر عنایت حسین نے بتایا کہ بل میں صارفین کے تحفظ کو یقینی بنایا گیا ہے، اور بل کی منظوری کے بعد بھی مائیکرو فنانس بینکوں کو اس میں شامل نہیں کیا جائے گا۔ کسی بینک کو شامل کرنے کا اختیار بورڈ کے پاس ہوگا۔
چیئرمین کمیٹی نے سوال کیا کہ آئی ایم ایف کے کہنے پر ہی کیوں اقدامات کیے جاتے ہیں، خود کام کیوں نہیں کرتے۔سینیٹر محسن عزیز نے پوچھا کہ کیا سب کچھ آئی ایم ایف کے کہنے پر کیا گیا ہے؟ڈپٹی گورنر نے جواب دیا کہ بل خود تیار کیا گیا ہے، جبکہ آئی ایم ایف نے ہماری مدد کی ہے۔
ڈپٹی گورنر نے مزید کہا کہ اس بل میں اسٹیٹ بینک کی شریعہ ایڈوائزری کمیٹی کی تشکیل شامل ہے، اور سنگل ممبر کمپنیاں، ٹرسٹ، اور این جی اوز بھی اس میں شامل ہو سکتی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ پیڈ اپ کیپٹل کو استعمال نہیں کیا جا سکے گا، اور کارپوریشن کے وسائل کے استعمال کا طریقہ کار بھی بل میں شامل ہے۔
اجلاس میں اسلامی بینکاری کے نام پر عوام سے دھوکہ دہی کا بھی انکشاف ہوا۔ چیئرمین کمیٹی سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ اسلامی بینکاری میں قرض پر 25 سے 30 فیصد شرح سود لی جاتی ہے، جبکہ روایتی بینکاری میں یہ شرح 20 فیصد ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اسلامی بینکاری کے نام پر عوام سے دھوکہ ہو رہا ہے، لوگ اسلام سے محبت کی وجہ سے نہیں بلکہ مالی مفاد کے لیے اسلامی بینکاری کا انتخاب کرتے ہیں، اور میرے پاس کئی کیسز ہیں جن میں اسلامی بینکاری میں شرح سود زیادہ ہونے کی شکایات آئی ہیں۔
قائمہ کمیٹی خزانہ نے اسٹیٹ بینک سے اسلامی بینکاری پر بریفنگ طلب کی اور بین الاقوامی اسلامی بینکاری کے طریقہ کار پر بھی وضاحت مانگی۔ڈپٹی گورنر نے کہا کہ بینکنگ کے شعبے میں روایتی بینکوں کا حصہ 75 فیصد ہے، جبکہ اسلامی بینکاری کا حصہ 25 فیصد ہے۔
اجلاس میں ڈیپازٹ پروٹیکشن کارپوریشن ترمیمی بل 2024 کا تفصیلی جائزہ لیا گیا اور بل منظور کر لیا گیا۔ ڈاکٹر عنایت حسین نے بتایا کہ ترمیمی بل کے تحت بینکوں میں پانچ لاکھ روپے تک کی رقم کو قانونی تحفظ حاصل ہوگا، جو پہلے ڈھائی لاکھ روپے تک تھا۔
چیئرمین کمیٹی نے سوال کیا کہ 50 سال گزرنے کے باوجود یہ کام کیوں نہیں کیا گیا؟ڈپٹی گورنر نے وضاحت کی کہ اس بل میں مائیکرو فنانس بینک شامل نہیں ہیں، مگر مستقبل میں انہیں بھی شامل کرنے کا ارادہ ہے۔ فی الحال، مائیکرو فنانس بینکوں کے لیے الگ تحفظ کا نظام موجود ہے، اور بورڈ کو اختیار ہوگا کہ وہ انہیں بل میں شامل کرے یا نہیں۔ پہلے عالمی مالیاتی ادارے ڈیپازٹرز کے تحفظ کے حق میں نہیں تھے، مگر آئی ایم ایف نے اب کہا ہے کہ ڈیپازٹرز کو تحفظ فراہم کیا جائے۔
چیئرمین کمیٹی نے سوال کیا کہ یہ تمام معلومات آئی ایم ایف ہی کیوں فراہم کرتا ہے؟ڈاکٹر عنایت حسین نے بتایا کہ ڈاکٹر عشرت حسین کے دور میں یہ کام کرنا چاہتے تھے، لیکن عالمی اداروں نے اس کی مخالفت کی تھی۔
سینیٹر محسن عزیز نے کہا کہ اسٹیٹ بینک کے بورڈ ممبران ایک میٹنگ کی 75 ہزار روپے فیس لیتے ہیں، جبکہ دیگر بینکوں کی فیس 50 ہزار روپے سے زیادہ ہے، جس کی وجہ سے لوگ بینکنگ کے شعبے میں ملازمت کو ترجیح دیتے ہیں۔ وہ لوگ جو پیسوں کی ضرورت رکھتے ہیں، وہ بورڈز کو جوائن کرتے ہیں، جبکہ اچھے اور سمجھدار لوگ اکثر بورڈ ممبر نہیں بنتے۔