سردار اختر مینگل قومی اسمبلی سے مستعفی ،ووٹرزسے معافی مانگ لی

اسلام آبا د۔بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر مینگل نے قومی اسمبلی کی نشست سے مستعفی ہونے کا اعلان کر دیا ۔ وہ این اے256 خضدار سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے تھے

قومی اسمبلی اجلاس کے بعد محمود خان چکزئی کے ہمراہ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سردار اختر مینگل نے کہا کہ آج تک کوئی اردو بولنے والا، پشتو بولنے والا، بلوچی یا کوئی بھی مارا گیا ہے ان کے قاتل عدالتیں ہیں جو انصاف فراہم نہیں کرتی،سب سے بڑے قاتل وہ سیاست دان ہیں جنہوں نے سیاست کو کاروبار کے لیے استعمال کیا۔

اس سیاست سے بہتر ہے میں پکوڑے کی دکان کھول لوں،مجھے نصیحت کرنے والے شخص کی وفات ہو چکی ہے،ان کی تدفین چھوڑ کر میں یہاں بات کرنے آیا لیکن ہمیں نہیں سنا گیا،آج میں اسمبلی سے استعفا کا اعلان کرتا ہوں،یہ اسمبلی ہماری آواز کو نہیں سنتی تو اس اسمبلی میں بیٹھنے کا کوئی فائدہ نہیں،65 ہزار ووٹرز مجھ سے ناراض ہونگے لیکن میں ان سے معافی مانگتا ہوں۔

۔انہوں نے کہا کہ میں نے آج فیصلہ کیا تھا کہ اسمبلی میں بلوچستان کے مسائل پر بات کروں گا،لیکن بلوچستان کے معاملے پر لوگوں کی دلچسپی نہیں ہے،پارلیمنٹیرین نے خود کہا کہ بلوچستان ہمارے ہاتھوں سے نکل رہا ہے،میں کہتا ہوں بلوچستان آپ کے ہاتھوں سے نکل نہیں رہا بلکہ نکل چکا ہے،بلوچستان میں بہت لوگوں کا خون بہہ چکا ہے،اس مسئلے پر سب کو اکٹھا ہونا چاہئے،اس مسئلے پر ایک اجلاس بلانا چاہئے تھا جس میں اس مسئلے پر بات ہوتی،جب بھی اس مسئلے پر بات شروع کو تو بلیک آوٹ کر دیا جاتا ہے،میری باتوں پر اگر آپ کو اختلاف ہے تو آپ میری باتیں تحمل سے سنیں،اگر پھر بھی میری باتیں غلط لگیں تو مجھے ہر سزا قبول ہے،مجھے بے شک پارلیمنٹ کے باہر انکاونٹر کر دیں یا مار دیں لیکن بات تو سنیں

انہوں نے کہا کہ ہمارے ساتھ کوئی بھی نہیں اور نا کوئی بات سنتا ہے،یہاں پر لوگ اپنے حق کے لئے آواز اٹھاتے ہیں تو ان کو بھی نہیں بولنے دیا جاتا،آج جو آئین کی بات کر رہے ہیں وہ کہتے ہیں آئین کے مطابق بات کرے گا ان سے بات کریں گے،کیا اسمبلی آئین کے مطابق نہیں؟ ہم تو اسمبلی میں بات کر رہے تھے،ہمیں اسمبلی میں بات نہیں کرنے دیتے،ایپکس کمیٹی کی میٹنگ کوئٹہ میں بلائی گئی، ہمیں بھی دعوت دی گئی،75 سالوں میں ہم آپ کو سمجھا رہے ہیں لیکن آپ کو سمجھ نہیں آرہا

بلوچستان کے حالات کی نشاندہی میں کئی سال پہلے کر چکا ہوں لیکن کسی کو پرواہ نہیں،انہوں نے کہا کہ خود اس ریاست سے، اداروں سے اور سیاسی جماعتوں سے میں مایوس ہو چکا ہوں،محمود خان اچکزئی اس امید سے ہیں کہ شاید ان کو اس پارلیمنٹ سے ان کو کچھ ملے گا،ہم نے اس ملک کے ہر ادارے کے دروازے کھٹکھٹائے لیکن ہماری بات نا سنی گئی،ہم کہاں جائیں اور کس کا دروازہ بجائیں،آئین کے بنانے والے نا خود کو بچا سکے نا آئین کو بچا سکے،4 ووٹوں کی ضرورت ہوتی ہے تو اختر مینگل کے پاس آجاتے ہیں،جب ضرورت ہوتی ہے تو محمود خان اچکزئی کو تحفظ آئین کا چئیرمین بنا دیا جاتا ہے۔

آج ہم یہاں کھڑے ہیں لیکن ہماری آواز ہی نہیں سنی جا رہی،بلوچستان سے کبھی ملٹری آپریشن ختم ہوا ہی نہیں،کسی دور حکومت میں کہا گیا ہم ملٹری آپریشن ختم کر کے عام معافی کا اعلان کرتے ہیں،25 اگست کا جو واقع ہوا اس پر جو ایپکس کمیٹی بلائی گئی اس کے استقبال لے لیے 4 نوجوانوں کی لاشیں پھینکی گئی،2022 کے الیکشن میں کہا تھا جن کے خلاف آپ آپریشنز کر رہے ان کے خلاف آپ نہیں جا سکتے،چھوٹے میاں اور بڑے میاں دونوں میں اتفاق نہیں ہیں ،بلوچستان میں آپ نے ایک حوالدار کی ذہنیت کے بندے آپ نے وزیر اعلیٰ بنا دیا ہے

آپ کے غلط فیصلوں کی وجہ سے بلوچستان کا یہ حال ہے،دونوں سیاسی جماعتیں کہتی ہیں وہ وزیر اعلی ہمارے ہیں،فروری 2024 کے الیکشن کا ہمیں علم ہو چکا تو مجھ سے کسی نے کہا خلائی مخلوق آپ سے ناراض ہیں کیونکہ آپ سخت تقریریں کرتے ہیں،الیکشن میں جو فیصلے کئے جاتے ہیں وہ فیض آباد اور فیصل آباد کی ہواو¿ں سے نتائج بناتے ہیں،اسد قیصر جب اسپیکر تھے تب ایک کمیٹی بنائی گئی جس کی ایک میٹنگ بھی نہیں بلائی گئی،ہمارے آباو اجداد نے ہماری ایسی تربیت نہیں کی کہ کسی کو گالی دیں،ہم نے کسی کو برا بھلا کہا نا کسی کے لئے غیر مناسب لفظ استعمال کئے