مجوزہ 56 ترامیم کی تفصیلات سامنے آگئیں

اسلام آباد: حکومت نے آئین میں 56 ترامیم کی تفصیلات جاری کر دی ہیں، جن کے تحت چیف جسٹس کی مدت تقرری تین سال اور ججز کی ریٹائرمنٹ کی عمر 68 سال تجویز کی گئی ہے، جبکہ پارلیمانی پارٹی کی ہدایت کے خلاف ووٹ ڈالنے والے رکن کا ووٹ شمار نہیں ہوگا۔ 26ویں آئینی ترمیم کا ورکنگ پیپر منظر عام پر آیا ہے، جس میں مجموعی طور پر 56 ترامیم تجویز کی گئی ہیں۔

تجویز کے مطابق، سپریم کورٹ کے متوازی ایک وفاقی آئینی عدالت کے قیام کا منصوبہ ہے، جہاں آئینی عدالت کے چیف جسٹس کی تقرری تین سال کے لیے ہوگی اور ریٹائرمنٹ کی عمر 68 سال ہوگی۔ پارلیمانی پارٹی کی ہدایت کے خلاف ووٹ ڈالنے والے رکن کا ووٹ شمار نہیں ہوگا۔ اس کے علاوہ، چیف جسٹس سپریم کورٹ اور آئینی عدالت کے چیف جسٹس کی تقرری کا اختیار قومی اسمبلی کی 8 رکنی کمیٹی کی سفارش پر وزیر اعظم کو دینے کی تجویز بھی شامل ہے۔

مجوزہ ورکنگ پیپر میں 56 ترامیم کی تجویز دی گئی ہے، جن میں آئین کے آرٹیکل 48 میں ترمیم کی تجویز دی گئی ہے، جس کے تحت صدر کو کابینہ یا وزیراعظم کی جانب سے بھجوائی جانے والی ایڈوائس پر کوئی عدالت یا اتھارٹی انکوائری نہیں کر سکے گی۔ آئین کے آرٹیکل 63 میں بھی مجوزہ ترمیم کے تحت پارلیمانی پارٹی کی ہدایت کے خلاف ووٹ ڈالنے والے رکن کا ووٹ شمار ہوگا۔

ورکنگ پیپر میں آئین کے آرٹیکل 78 میں ترمیم کی تجویز دی گئی ہے، جس کے تحت وفاقی آئینی عدالت کے قیام کی تجویز دی گئی ہے۔ اس کے علاوہ، آرٹیکل 175 میں بھی ترمیم تجویز کی گئی ہے، جس کے تحت ہائی کورٹس اور شریعت کورٹ کے ججز کی تقرری ایک کمیشن کرے گا، جبکہ وفاقی آئینی عدالت کے چیف جسٹس کمیشن کے سربراہ ہوں گے۔ کمیشن میں آئینی عدالت کے دو سینیئر ترین ججز، سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اور دو سینیئر ترین ججز شامل ہوں گے۔

ورکنگ پیپر میں شامل ترامیم کے مطابق، کمیشن میں وزیر قانون، اٹارنی جنرل، سینیئر ایڈوکیٹ اور قومی اسمبلی و سینیٹ کے دو دو ممبران شامل ہوں گے۔ وفاقی آئینی عدالت کے ججز کی تقرری کے لیے کمیشن میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اور ججز کے بجائے آئینی عدالت کے تین مزید ججوں کو شامل کیا جائے گا۔ سپریم کورٹ کے ججوں کی تقرری کے لیے کمیشن کے سربراہ چیف جسٹس سپریم کورٹ ہوں گے، اور سپریم کورٹ کے ججوں کی تقرری کے لیے کمیشن میں آئینی عدالت کے بجائے سپریم کورٹ کے پانچ جج شامل ہوں گے۔ آئینی عدالت کے چیف جسٹس کا تقرر قومی اسمبلی کی کمیٹی کی سفارشات پر کیا جائے گا۔

مجوزہ ورکنگ پیپر کے مطابق، قومی اسمبلی کی کمیٹی آئینی عدالت کے تین سینیئر ترین ججوں میں سے ایک کو نامزد کرے گی، اور اس نامزد کردہ جج کا نام وزیراعظم کو بھجوایا جائے گا۔ آئینی عدالت کے پہلے چیف جسٹس کا تقرر صدر مملکت وزیراعظم کی ایڈوائس پر کریں گے، اور آئینی عدالت کے پہلے ججز کا تقرر صدر مملکت آئینی عدالت کے چیف جسٹس کی مشاورت سے کریں گے۔

مجوزہ ترمیم کے تحت، قومی اسمبلی کی کمیٹی آئینی عدالت کے چیف جسٹس کی تقرری کے لیے 8 رکنی ہوگی۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کا تقرر بھی قومی اسمبلی کی کمیٹی کی سفارش پر کیا جائے گا، اور چیف جسٹس سپریم کورٹ کے لیے تین سینیئر ترین ججوں میں سے ایک کو کمیٹی نامزد کرے گی۔

آئینی ترمیم کے مجوزہ ورکنگ پیپر کے مطابق، کمیٹی کی جانب سے نام وزیراعظم کو بھیجا جائے گا، جن کی ایڈوائس پر صدر مملکت تقرر کریں گے۔ وفاقی آئینی عدالت سات ججز پر مشتمل ہوگی، جن میں ایک ایک جج چاروں صوبوں سے اور ایک وفاقی دارالحکومت سے ہوگا، جبکہ آئینی عدالت میں دو ایکسپرٹ ججز بھی شامل ہوں گے۔ چیف جسٹس آف پاکستان کے بجائے چیف جسٹس آف سپریم کورٹ کے الفاظ استعمال کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔

ورکنگ پیپر میں یہ بھی تجویز دی گئی ہے کہ کسی دوسرے ملک کی شہریت رکھنے والے کو سپریم کورٹ یا آئینی عدالت کا جج مقرر نہیں کیا جا سکے گا، اور آئینی عدالت کے ججز 68 سال کی عمر میں ریٹائر ہوں گے۔ آئینی عدالت میں سپریم کورٹ سے آنے والے جج کی مدت تین سال ہوگی، اور سپریم کورٹ اور آئینی عدالت کے چیف جسٹسز کی مدت ملازمت تین سال ہوگی۔