اسلام آباد ۔امیرجماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن نے کہا ہے کہ حکمران طبقے کی کوئی قوم اور زبان نہیں ہوتی،یہ اپنے مفادات کے لیے اکٹھا ہوتے ہیں،بنگلہ دیش کے عوام متحد ہوگئے اور شیخ حسینہ واجد کی حکومت کو گرا دیا اور ملک چھوڑ کر جانے پر مجبور کیا،بنگلہ دیش نے دور غلامی کا خاتمہ کردیا ہے
ان خیالات کا اظہار انہوں نے ایکسپو سینٹر کراچی میں پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن کے ستائیسویں دو روزہ کنونشن کے دوسرے روز الاقصیٰ سیشن سے خصوصی خطاب کرتے ہوئے کیا۔نااہل حکمرانوں نے عوام کے مسائل حل نہ کیے تو ان کے لیے ائیر لفٹ ملنا بھی مشکل ہو جائے گی،عوام کو امن، تعلیم اور صحت کی سہولیات سمیت تمام چیزیں فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے،اگر سارا کام ہی فلاحی تنظیموں نے کرنا ہے تو عوام حکومت کو ٹیکس کیوں ادا کریں۔
سندھ میں تعلیم کا 454 ارب کا بجٹ ہے تمام صوبہ جات میں صرف تعلیم کی مد میں 15ہزار ارب سے زائد کے بجٹ ہیں۔ اگر تعلیم اور صحت کے بجٹ میں کرپشن نہ ہو توپاکستان میں تعلیم اور صحت کا نظام بہتر ہوسکتا ہے۔ صحت کے بجٹ میں بھی اربوں روپے مختص کیے گئے ہیں۔ بنیادی طور پر صحت کے شعبے میں جن چیزوں پر کام کرنا چاہیئے ان پر بجٹ کا پیسہ خرچ نہیں کیا جاتا۔ سندھ اور بلوچستان میں تعلیم اور صحت کا برا حال ہے۔ جب سرکاری محکمے ایمانداری سے کام نہ کریں تو پرائیویٹ سیکٹرز کو فائدہ ہوتا ہے۔ غریب اور مڈل کلاس طبقے سے وابستہ افراد اپنے بچوں کو تعلیم اور صحت فراہم نہیں کرسکتے۔
پاکستان کی 25 کروڑ آبادی میں سے صرف ڈھائی کروڑ افراد ایسے ہیں جو اپنے بچوں کو انٹر میڈیٹ کے بعد پڑھاسکتے ہیں۔ 3 کروڑ بچے تعلیم سے محروم ہیں۔ امت مسلمہ کے حکمرانوں کی مجرمانہ خاموشی کی وجہ سے اسرائیل کو تقویت حاصل ہورہی ہے۔ حکمران سمجھتے ہیں کہ اگر ہم نے فلسطین کا ساتھ دیا تو ہماری جرنیلی،عیاشی اور حکومت کو خطرہ ہو جائے گا۔ بحیثیت امت مسلمہ ہماری زمہ داری بنتی ہے کہ یو این او اور ملکی سطح پر فلسطین کی آواز بنیں۔پیماکنونشن سے اسلامک سرکل آف نارتھ امریکا کے صدر ڈاکٹر محسن انصاری اور برطانیہ میں مقیم تجزیہ کار سمیع حامدی، صدر الخدمت فاؤنڈیشن ڈاکٹر حفیظ الرحمن،یقین انسٹیٹیوٹ فار اسلامک ریسرچ امریکا کے شیخ عمر سلیمان، پیما کے مرکزی صدر پروفیسر عاطف حفیظ ڈاکٹر،بابر سعید و دیگر نے خطاب کیا۔حافظ نعیم الرحمن نے مزید کہاکہ ملک کا موجودہ بجٹ میں ہم بہت کچھ کرسکتے ہیں۔ بدقسمتی سے ملک میں کرپشن تمام اداروں میں سرائیت کر چکی ہے جس کے نتیجے میں موجودہ بجٹ عوام کے لیے کچھ نہیں ہے۔
قوم کے ہر بچے کو کوالٹی تعلیم فراہم کرنا اور صحت کی سہولیات فراہم کرنا حکومت و ریاست کی اہم ترین ذمہ داری ہے۔اسلامی نظام معیشت یہ ہے کہ امیر غریبوں کا استحصال کرکے امیر نہیں بن سکتا۔ غریب محنت کے بل بوتے پر امیر بن سکتا ہے۔ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ تمام افراد کو یکساں نظام تعلیم فراہم کرے جس سے امیر اور غریب دونوں کے لیے آگے بڑھنے کے مواقع ہوں گے اور یہی اسلامی نظام ہے۔ تعلیم اور صحت کی سہولیات سب کو برابر میسر آسکیں۔ ہمیں اپنی قوم اور بچوں کے مستقبل کے لیے گھروں سے نکلنا ہوگا۔انہوں نے مزیدکہاکہ اللہ کا شکر ہے کہ امت مسلمہ میں فلسطین کے حوالے سے یک جہتی نظر آتی ہے۔ امت مسلمہ کے بعض حکمران جو فلسطین کاز سے الگ نظر آتے ہیں جبکہ اسرائیل کی پشت بانی کررہے ہوتے ہیں۔
جنگ کے میدان میں اسرائیل حماس کے مجاہدین کا مقابلہ نہیں کرسکتا وہ شکست کھا چکا ہے۔ 7 اکتوبر کو ہی حماس کے مجاہدین نے اسرائیل کی ٹیکنالوجی کو پسپا کردیا تھا۔اسرائیلی صدر نیتن یاہو کے حکم پر معصوم بچوں اور عورتوں پر بم برسائے جارہے ہیں۔ پوری دنیا میں انتخابات میں فلسطین کا اثر نظر آرہا ہے۔ جو بھی امیدوار یا پارٹی فلسطین اور حماس کی حمایت یافتہ ہیں انہیں ووٹ دیا جاتا ہے۔ ہم اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ توکرسکتے ہیں۔ اور فلسطین کے حق میں آواز بلند کرسکتے ہیں اور ان کی مالی امداد کرسکتے ہیں۔ نااہل حکمرانوں نے معیشت کو گروی رکھ دیا ہے، بنیادی ضروریات تک فراہم نہیں کرتے۔ دوسری جانب اسرائیل کی پشتبانی کرتے ہیں اور فلسطین کی حمایت نہیں کرتے۔ ہمیں اپنے سروں پر مسلط ایسے تمام لوگوں کو ہٹانا ہے جنہوں نے ہماری معیشت تباہ کردی۔ اہل غزہ و فلسطین کے مسلمانوں کو ہزاروں کی تعداد میں شہید کیا جاچکا ہے۔ غزہ کے مسلمان یقین اور امید کے ساتھ زندگی بسر کررہے ہیں۔
نوے فیصد مکانات تباہ کردیے گئے ہیں اس کے باوجود وہاں کے بچے، بوڑھے اور جوان سب اللہ کی رضا میں راضی ہیں۔ اہل غزہ و فلسطین کے لوگوں نے مزاحمت کی زندگی کو اختیار کیا ہے۔پاکستان نوجوانوں کا ملک ہے ہمیں غزہ کے نوجوانوں سے سیکھنا چاہیے۔امیرجماعت نے مزیدکہاکہ پنجاب حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ 14 ہزار اسکولز کو پرائیویٹ سیکٹر کے حوالے کردیاجائے۔سندھ حکومت بھی گورنمنٹ اسکول کو پرائیویٹ سیکٹر کو فروخت کرنے جارہی ہے۔گورنمنٹ سیکٹر کے اسکولوں کی صورتحال تباہ کن ہے۔عوام یہ سمجھتے ہیں کہ یہ ہمارا حق ہی نہیں ہے کہ ہمیں سرکار کی طرف سے کوالٹی تعلیم میسر ہو۔عوام اپنے استحقاق سے دستبردار ہوگئے ہیں جس کی وجہ سے ظالم طاقت ور ہوتے جارہے ہیں۔ پاکستان میں موجود ڈاکٹرز پاکستان میں نہیں رکتے اور باہر ملازمت کے لیے چلے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں تعلیم کے ساتھ ساتھ صحت کا بھی برا حال ہے۔ اندرون سندھ کے لوگ بھی اپنا علاج کروانے کے لیے کراچی آتے ہیں۔ سندھ حکومت این جی اوز کی آڑ میں ہیلتھ سیکٹر کو چلارہی ہے۔ پرائیویٹ سیکٹر زنے تعلیم اور صحت کو کاروبار بنالیا ہے۔ پرائیویٹ سیکٹر کے قیام کا مقصد کاروبار نہیں تھا بلکہ سرکاری اداروں کے ساتھ پارٹنرشپ پر کام کرنا تھا۔ حکومت و ریاست کے پاس عوام کے ٹیکسوں کا پیسہ ہے اور یہی پیسہ عوام پہ خرچ نہیں کیا جارہا ہے۔ ملک پر ایسا طبقہ قابض ہے کہ جو عوام کو سہولیات سے محروم کررہا ہے۔ ہمیں ایسے نااہل حکمرانوں کے خلاف آواز اٹھانے کی ضرورت ہے۔