اسلام آباد ہائی کورٹ نے ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس میں تینوں سزا یافتہ مجرموں کی اپیلیں مسترد کرتے ہوئے انسداد دہشت گردی عدالت کی جانب سے سنائی گئی عمر قید کی سزاؤں کا فیصلہ برقرار رکھا ہے۔
چیف جسٹس اطہر من اللّٰہ کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس کے سزا یافتہ مجرموں خالد شمیم، محسن علی اور معظم علی کی ٹرائل کورٹ سے عمر قید کی سزا کے فیصلے کے خلاف اپیلیں مسترد کر دیں۔
عدالت نے اپیل کنندگان کے وکلاء اور ایف آئی اے کے پراسیکیوٹر خواجہ امتیاز کے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کر رکھا تھا۔
انسداد دہشت گردی کی عدالت نے تینوں ملزمان کو عمر قید کی سزا سنائی تھی اور دس، دس لاکھ روپے جرمانہ مقتول کی اہلیہ کو بطور زر تلافی ادا کرنے کا حکم بھی دیا تھا۔
واضح رہے کہ ایم کیو ایم کے سینئر رہنما ڈاکٹر عمران فاروق کو 16 ستمبر 2010 ء کو لندن میں قتل کر دیا گیا تھا، عمران فاروق کو ان کے گھر کے پاس شام ساڑھے پانچ بجے اینٹوں اور چھریوں کے وار سے قتل کیا گیا تھا۔
ایف آئی اے کے انسداد دہشت گردی ونگ نے 5 دسمبر 2015ء کو مقدمہ درج کیا تھا، پراسیکیوشن کے مطابق محسن علی سید اور محمد کاشف کامران پہ الزام تھا کہ ان دونوں نے مل کر عمران فاروق کو قتل کیا۔
محسن علی سید نے مقتول کو پیچھے سے پکڑا اور کاشف خان کامران نے ان پر اینٹوں اور چھریوں کے وار کیے۔
اسکاٹ لینڈ یارڈ نے 4500 سے زائد لوگوں کے انٹرویوز کیے جبکہ 7600 سے زائد کاغذات کی چھان بین بھی کی تھی۔
برطانیہ نے اس شرط پر کیس سے متعلقہ دستاویزات شیئر کیں کہ جرم ثابت ہونے پر بھی ملزمان کو سزائے موت نہیں ہو گی۔
جولائی 2019 ءمیں صدارتی آرڈیننس لایا گیا جس میں 1860 کے پاکستان پینل کوڈ کے سیکشن تین میں ایک تبدیلی کی گئی تھی۔