کراچی۔امریکی حراست میں قید پاکستانی نیورو سائنٹسٹ ڈاکٹر عافیہ صدیقی نے امید ظاہر کی ہے کہ ان کے خلاف مقدمے میں نئے شواہد سامنے آنے کے بعد انہیں رہا کر دیا جائے گا۔
برطانوی نشریاتی ادارے اسکائی نیوز کے مطابق، ڈاکٹر عافیہ صدیقی نے اپنے وکیل کے ذریعے یہ بات خصوصی طور پر بتائی۔ انہوں نے اپنے آپ کو بے گناہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ “مجھے امید ہے کہ مجھے بھلا نہیں دیا گیا ہے، اور جلد ہی مجھے رہا کر دیا جائے گا۔”
ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا کہنا تھا کہ “میں ناانصافی کا شکار ہوں، ہر دن اذیت ناک ہے، یہ آسان نہیں ہے، لیکن انشااللہ ایک دن میں اس اذیت سے آزاد ہو جاؤں گی۔”
ان کے وکیل، کلائیو اسٹافورڈ اسمتھ نے سبکدوش ہونے والے امریکی صدر جو بائیڈن سے درخواست کی کہ وہ اپنی مؤکلہ کو معافی دیں اور انہیں 76 ہزار 500 الفاظ پر مشتمل ایک ڈوزیئر پیش کیا۔ بائیڈن کو اس درخواست پر غور کرنے کے لیے پیر تک کا وقت دیا گیا ہے، جبکہ ڈونلڈ ٹرمپ حلف اٹھائیں گے۔ اب تک بائیڈن 39 افراد کو صدارتی معافی دے چکے ہیں اور 3,989 افراد کی سزائیں کم کر چکے ہیں۔
عافیہ صدیقی کے وکیل نے اپنے مؤکلہ کے مقدمے کی سماعت کے وقت گواہوں کی شہادتوں کا حوالہ دیا جو اس وقت دستیاب نہیں تھیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ انٹیلی جنس کی غلطیوں کی وجہ سے ڈاکٹر صدیقی کو مشتبہ قرار دیا گیا۔ وکیل کا کہنا تھا کہ 2003 میں جب ڈاکٹر صدیقی پاکستان میں تھیں، انہیں انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) نے اپنے تین بچوں کے ساتھ تحویل میں لیا اور پھر سی آئی اے کے حوالے کر دیا، جس کے بعد انہیں افغانستان کے بگرام ایئر بیس لے جایا گیا۔
وکیل نے الزام عائد کیا کہ امریکی انٹیلی جنس نے غلط اندازہ لگایا اور یہ سمجھا کہ ڈاکٹر صدیقی ایک نیوکلیئر فزکس کی ماہر ہیں جو ریڈیو ایکٹو بم بنانے پر کام کر رہی ہیں، حالانکہ وہ دراصل تعلیم میں پی ایچ ڈی کی حامل ہیں۔
امریکی محکمہ انصاف نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے بارے میں تمام الزامات پر رد عمل دینے سے گریز کیا ہے، جبکہ سی آئی اے نے بھی اس سلسلے میں ہمارے سوالات کا جواب نہیں دیا۔