رہا ہونے والی اسرائیلی یرغمالی خواتین کا حماس کے حسن سلوک سے متعلق بیان سامنے آگیا

تل ابیب ۔حماس کی قید سے رہا ہونے والی تین اسرائیلی خواتین نے اسرائیل پہنچنے کے بعد اپنی قید کے تجربات بیان کیے، جن سے اسرائیلی میڈیا کو حیرانی کا سامنا کرنا پڑا۔

اسرائیلی میڈیا، جو ہمیشہ سے حماس کے خلاف منفی پروپیگنڈا کرتا رہا ہے، ان خواتین کے بیانات کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کی عادت رکھتا ہے۔ تاہم، ان کی تازہ روداد نے عوامی رائے کو متاثر کیا ہے۔

دو روز قبل غزہ جنگ بندی معاہدے کے تحت رہائی پانے والی ان خواتین نے حماس کے اچھے برتاؤ کی تعریف کی اور بتایا کہ انہیں کسی قسم کی جسمانی یا ذہنی تکلیف نہیں دی گئی۔

خواتین نے بتایا کہ انہیں زیر زمین سرنگوں میں رکھا گیا، جہاں کھانے پینے، ٹی وی اور اخبارات کی مکمل سہولیات فراہم کی جاتی تھیں۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ حماس نے بیماری کی صورت میں بروقت دوائیں اور علاج مہیا کیا، اور ان کی دیکھ بھال میں کسی قسم کی کمی نہیں کی گئی۔

رہائی پانے والی خواتین نے بتایا کہ حماس نے ان پر کسی قسم کی پابندیاں عائد نہیں کیں اور وہ ٹی وی پر اپنے حق میں ہونے والے مظاہرے بھی دیکھتی رہیں۔

واضح رہے کہ دو دن قبل 23 سالہ اسرائیلی ڈانسر رومی گونین، 30 سالہ ویٹرنری نرس ڈورون اسٹینبریشر، اور 28 سالہ ایملی داماری کو جنگ بندی کے معاہدے کے تحت رہا کیا گیا تھا۔