عمران خان کا خط ججز آئینی کمیٹی کو بجھوادیا، چیف جسٹس

اسلام آباد ۔چیف جسٹس آف پاکستان، یحییٰ آفریدی نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی کے بانی عمران خان کا مراسلہ ججز کی آئینی کمیٹی کو ارسال کر دیا گیا ہے، اور یہ کمیٹی ہی اس پر فیصلہ کرے گی۔ آئینی بینچ ہی اس معاملے کا جائزہ لے گا۔

سپریم کورٹ میں عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے خصوصی وفد سے ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ آئی ایم ایف وفد کی ملاقات کی تفصیلات فراہم کریں گے، پی ٹی آئی کے بانی کے مراسلے پر بات کریں گے اور نیشنل جوڈیشل پالیسی میکنگ کمیٹی کے امور پر بھی گفتگو کریں گے۔

چیف جسٹس نے مزید کہا کہ انہوں نے آئی ایم ایف وفد کو واضح کر دیا کہ عدلیہ کی خودمختاری آئین کے تحت یقینی بنائی گئی ہے، اور یہ عدلیہ کا کام نہیں کہ وہ انہیں ہر معاملے کی تفصیلات فراہم کرے۔ انہوں نے وفد کو نیشنل جوڈیشل پالیسی میکنگ کمیٹی کے ایجنڈے سے بھی آگاہ کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ماتحت عدلیہ کی نگرانی ہائی کورٹس کے دائرہ اختیار میں آتی ہے۔ وفد نے معاہدوں کی پاسداری اور جائیداد کے حقوق سے متعلق معلومات مانگی، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ان امور پر اصلاحات جاری ہیں۔

چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ وہ عدالتی امور میں بہتری کے لیے تجاویز دیں گے، اور ہائی کورٹس میں جلد سماعت کے لیے بینچز قائم کیے جائیں گے۔ انہوں نے وفد سے کہا کہ ان کے خدشات دوطرفہ نوعیت کے ہونے چاہئیں۔ وفد نے پاکستان میں غیر ملکی سرمایہ کاری کے تحفظ کی خواہش ظاہر کی، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ عدلیہ کے لیے مصنوعی ذہانت (آرٹیفیشل انٹیلیجنس) کی ضرورت ہوگی۔

چیف جسٹس نے مزید بتایا کہ انہیں مختلف خطوط موصول ہوتے ہیں، بشمول وزیراعظم شہباز شریف کا خط، اور اس حوالے سے انہوں نے اٹارنی جنرل کے ذریعے وزیراعظم کو پیغام بھیجا ہے کہ وہ اپنی ٹیم کے ساتھ ملاقات کریں۔

انہوں نے یہ بھی بتایا کہ اپوزیشن لیڈر سے رابطہ کرنا مشکل ثابت ہوا، لیکن حکومت اور اپوزیشن دونوں سے عدالتی اصلاحات کے لیے ایجنڈا طلب کیا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان ہم سب کا ہے، اور پی ٹی آئی کے بانی کے مراسلے میں آرٹیکل 184(3) سے متعلق نکات شامل ہیں۔ انہوں نے آئینی کمیٹی سے کہا کہ وہ اس کا جائزہ لے کر فیصلہ کرے، کیونکہ یہ معاملہ آئینی بینچ کے دائرہ اختیار میں آتا ہے۔

ایک صحافی کے سوال پر کہ پی ٹی آئی کے بانی کے خط کو آئینی کمیٹی کو بھیجنے کے پیچھے کیا اصول یا وجوہات تھیں، اور عدلیہ میں اختلافات ختم کرنے کے لیے کیا اقدامات کیے جا رہے ہیں؟ چیف جسٹس نے جواب دیا کہ ججز کے درمیان بعض معاملات پر پرانی روایات موجود ہیں، جنہیں بہتر ہونے میں وقت لگے گا، لیکن آہستہ آہستہ بہتری آ جائے گی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ انہوں نے ججز سے کہا ہے کہ نظام کو چلنے دیں اور کسی رکاوٹ کا باعث نہ بنیں۔ وہ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب کو سپریم کورٹ میں لانے کے حامی ہیں، جبکہ وہ ججز جو کارپوریٹ کیسز سن رہے تھے، ان دنوں مقدمات نہیں سن رہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ جوڈیشل کمیشن میں تبدیلی آئی ہے اور اس کی خوبی یہ ہے کہ کوئی بھی رکن ججز کے نام تجویز کر سکتا ہے، اور کئی باصلاحیت ججز آ رہے ہیں۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ جسٹس میاں گل حسن اب بھی اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے عہدے کے امیدوار ہیں، جبکہ جسٹس میاں گل حسن گل زیب کو قائم مقام جج کے طور پر تعینات کیا گیا ہے، جو ٹیکس کیسز کے ماہر ہیں۔

چیف جسٹس نے بتایا کہ جوڈیشل کمیشن کے آئندہ اجلاس میں ان کا نام دوبارہ زیر غور آئے گا، اور عوام کو معلوم ہونا چاہیے کہ آئی ایم ایف کا وفد سپریم کورٹ کیوں آیا تھا۔

انہوں نے مزید کہا کہ پی ٹی آئی کے بانی کے مراسلے کو کمیٹی کو بھیجنے کا فیصلہ پہلے ہی کر لیا گیا تھا، اور مراسلہ لکھنے کی پرانی روایات وقت کے ساتھ ختم ہو جائیں گی۔ خط لکھنے والے ججز کو صبر سے کام لینا چاہیے تھا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ مسائل کو الجھانے کے بجائے حل کرنا ضروری ہے، اور نظام پر بھروسہ کرنا ہوگا۔ آئندہ ہفتے سے دو مستقل بینچز صرف فوجداری مقدمات کی سماعت کریں گے، جبکہ سزائے موت کے مقدمات جلد سماعت کے لیے مقرر کیے جا رہے ہیں۔ ججز کی تعیناتی کے بعد ہی مقدمات کی سماعت کا شیڈول طے ہوگا۔

چیف جسٹس نے بتایا کہ 26 اکتوبر کو حلف اٹھانے کے بعد انہوں نے ہائی کورٹ کے ججز کو اپنے گھر مدعو کیا، اور جو ان کے اختیار میں تھا، وہ ضرور کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ عدلیہ میں مقدمات کے دباؤ کا تاثر غلط ہے۔