اسلام آباد (نیوز رپورٹر)صدر پی ایف یو جے افضل بٹ کا بھوک ہڑتالی کیمپ سے خطاب،پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کی اپیل پر ملک بھر کی تمام یوجیز اور پریس کلبوں میں علامتی بھوک ہڑتال کا تیسرا دن ہے ،میں ملک بھر کے صحافیوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں جنھوں نے پی ایف یو جے کی کال پر لبیک کہا ،یہ تحریک آزادی صحافت کا تیسرا مرحلہ تھا ہم آزادی صحافت اور آزادی رائے کی جناب منہاج برنا اور نثار عثمانی کی شمع کو لے کر آگے بڑھ رہے ہیں حکمرانوں نے سمجھا کہ ایک دن احتجاج ہو گا اور پھر سب خاموش ہو جائیں،گے ہم نے کالے قانون کی منظوری پر بتا دیا تھا کہ یہ ہماری تحریک کا نقطہ آ غاز ہے.
ہم نے پہلے یوم سیاہ منایا، ڈی چوک تک جلوس لے کر گئے پھر تمام پریس کلبوں پر سیاہ پرچم لہرائے ، اس کے بعد علامتی بھوک ہڑتالی کیمپ لگائے گئے ، آج پھر پارلیمنٹ میں موجود سیاسی جماعتوں کو کہتے ہیں کہ پارلیمنٹ عمارت سے سپریم نہیں ہوتی پارلیمنٹ اپنے عمل سے سپریم ہوتی ہے پارلیمنٹ اس وقت سپریم ہو گی جب ارکان اپنے کردار سے ثابت کریں گے کہ وہ پاکستان میں،انسانی حقوق اور شہری آزادیوں کے علمبردار ہیں،
ہم پارلیمنٹ سے ہی امید رکھتے ہیں اور ان ہی سے اپیل کرتے ہیں ، اب پی ایف یو جے کے پاس دو راستے تھے ایک راستہ آئینی جنگ دوسرا عملی جدوجہد کا ہے ہمیں،امید ہے اسلام،آباد ہوئی کورٹ اپنے سابقہ ریکارڈ کے مطابق انصاف سے کام لے گی.
ہم نے پیکا پر شق وار اعتراض اٹھایا ہے کہ کون کون سی شقیں آئین سے متصادم ہیں اگر عدالت نے بھی قومی اسمبلی اور سینٹ کی طرح انگوٹھا لگا دیا تو پھر جنگ کے علاوہ ہمارے پاس کوئی راستہ نہیں ہو گا ،میں،ایک بار پھر ان سیاسی جماعتوں،سے مطالبہ کرتا ہوں جو کل تک ہمارے ساتھ کھڑے تھے ،جو ہمارے ساتھ وعدے کرتی تھیں کہ پیکا کالا قانون ہے اگر موقع ملا تو اس کو ختم کریں گے ،آج اس بھوک ہڑتالی کیمپ کے ساتھ ہی تیسرے مرحلے کا خاتمہ ہو جائے گا ، آخری کال پارلیمنٹ کے سامنے دھرنے کی ہو گی ہم ملک کے تمام شعبہ زندگیوں کے لوگوں،سے رابطہ کریں گے ً،ہم آل پارٹیز کانفرنس بھی بلائیں گے.
آخری کال دھرنے کی ہو گی جس کی واپسی کی کوئی تاریخ نہیں ہو گی ،ہارلیمنٹ ہاوس سے واپسی تب تک نہیں ہو گی جب تک کالا قانون واپس نہیں ہوتا پورے ملک کے صحافیوں کے جذبات اس قانون پر ایک ہیں_
پارلیمنٹ جب جائیں،گے تو پورے پاکستان کے صحافی ہمراہ ہوں،گے ، پاکستان بھر میں تین روزہ بھوک ہڑتالی کیمپوں کے رہنماوں کی جانب سے ارکان پارلیمنٹ سے کہتا ہوں اپنے فیصلے پر نظر ثانی کر لیں ، ایسا نہ ہو کہ ایسی صورتحال پیدا ہو جائے گی آپ کی حکومت ڈگمگا جائے ، ہم نے کبھی سیاست میں مداخلت کی نہ کبھی کسی کے خلاف اپنا کندھا استعمال کرنے دیا ، آزادی اظہار رائے کے راستے میں فوجیوں اور سول ڈکٹیٹروں،سے ٹکراتے ہیں.