ایف آئی اے کا انسداد انسانی سمگلنگ سیل سمگلروں کیخلاف کارروائی کے بجائے مافیا کی پشت پناہی کرنے لگا

اسلام آباد۔وزیراعظم شہباز شریف کے احکامات کے باوجود ایف آئی اے کا انسداد انسانی سمگلنگ سیل سمگلروں کیخلاف کارروائی کے بجائے مافیا کی پشت پناہی کرنے لگا۔ حالیہ انسانی سمگلنگ کے دوران قیمتی پاکستانی جانوں کے ضیاع کے بعد وزیراعظم نے انسداد سمگلنگ سیل کو قومی مجرموں کیخلاف کریک ڈاﺅن کا حکم دیا۔دوران تحقیقات انکشاف ہوا کہ انسداد سمگلنگ سیل تو خود انسانی سمگلنگ مافیا کی پشت پناہی میں مصروف ہے۔

ذرائع نے بتایا کہ انسانی سمگلروں کیخلاف سیکٹروں درخواستیں 2022سے کارروائی کی منتظر ہیں لیکن انسداد انسانی سمگلنگ سیل مافیا سے مبینہ مال پانی لیکر معاملہ ادھر ادھر کر دیتا ہے جس کی وجہ سے مافیا کیخلاف کارروائی نہیں ہوتی۔ ذرائع کے مطابق اس میں کئی ریکروٹنگ ایجنسی مالکان بھی ملوث ہیں جو لائسنس یافتہ کا فائدہ اٹھا کر انسانی سمگلنگ سمیت کئی غیرقانونی دھندوں میں مصروف ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف ‘ وزیر داخلہ نے کشتی حادثے کے بعد ایف آئی اے کو واضح احکامات جاری کررکھے ہیں کہ جو ریکروٹنگ ایجنسی یا شخص انسانی سمگلنگ میں ملوث ہو کے خلاف کارروائی کی جائے لیکن ایف آئی اے اسلام آباد زون میں انسانی سمگلروں اور مختلف ریکروٹنگ ایجنسی جو کہ بظاہر لائسنس یا تبدیل بھی ہوتی ہیں شہریوں سے لاکھوں روپے ہتھیا کر غائب ہوچکے ہیں۔

ایف آئی اے اسلام آباد زون میں سال 2022 سے اب تک مختلف انسانی سمگلروں ریکروٹنگ کے خلاف شہریوں نے درخواستیں دے رکھی ہیں لیکن ایف آئی اے اسلام آباد زون نے کارروائی کی بجائے تمام درخواستوں کو التواءکا شکار رکھا ہوا ہے۔

ذرائع کے مطابق ایک ریکروٹنگ ایجنسی کے خلاف ایک شہری ذوالقرنین نے سال 2022 میں درخواست دی کہ سعودی عرب بھجوانے کا جھانسہ دے کر اس سے دو ایجنٹوں نے پانچ لاکھ روپے لئے لیکن سعودی عرب نہ بھجوایا رقم لے کر غائب ہوگئے مذکورہ درخواست گزار 2022 سے لے کر اب تک ایف آئی اے کے دفتر چکر لگا کر تھک گیا مگر مقدمہ درج نہ ہوا انسداد ہیومن ٹریفکنگ سیل کے افسران خفیہ طور پر معاملات طے کرکے خاموشی اختیار کررکھی ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ متعدد ریکروٹنگ ایجنسی بھی ایف آئی اے کی ملی بھگت سے چل رہی ہیں ان کے پاس ویزے دو سو ہوتے ہیں مگر وہ ہزاروں شہریوں سے کروڑوں روپے بٹور لیتے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ایف آئی اے میں انسانی سمگلروں اور ریکروٹنگ ایجنسی کے خلاف سینکڑوں درخواستیں موجود ہونے کے باوجود تمام درخواستیں التواءکا شکار ہیں جو کہ ڈائریکٹر‘ وزیر داخلہ‘ ڈائریکٹر ایف آئی اے کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔