پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے وزیراعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کے حوالےسے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی اکثریت ہے اور وزیراعظم کا امیدوار لانا ان کا حق ہے، پیپلز پارٹی وزیراعظم کے لیے اپنا امیدوار نہیں لائے گی۔
نجی ٹی وی کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے کہا کہ پاکستان کے عوام کو مبارک باد دینا چاہ رہا ہوں کہ یہ حکومت ختم ہوچکی ہے، خان صاحب نے اکثریت ختم ہونے پر پارلیمنٹ لارجز میں پولیس کے ذریعے دہشت پھیلانے کی کوشش کی اور اب سندھ ہاؤس میں دہشت پھیلائی۔
ان کاکہنا تھا کہ شکر ہے اس وقت جب سندھ ہاؤس میں ان کا حملہ ہوا تو ہمارے مہمان وہاں موجود نہیں تھے اور اس لیے کہ وہاں کافی دنوں سے موجود تھے تو ہم نے پہلے سے سوچا تھا کہ وہ شاید چند دن کے لیے منتقل ہوں۔
حکومتی منحرف اراکین کو پیسے دینے سے متعلق سوال پر انہوں نےکہا کہ حکومت کا اپنے اراکین اسمبلی پر شک کرنا بہت افسوس ناک ہے اور حکومت نے تین سال سے ایک سچ نہیں کہا اور جھوٹ بولا ۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ بھی جھوٹ ہے اور یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان پیپلزپارٹی مسلم لیگ (ن) کا وزیراعظم منتخب کرنے کے لیے پیسے خرچ کر رہی ہے، جھوٹ بولنا ہے ایسا جھوٹ بولیں کہ لوگ مان سکیں۔
انہوں نے کہا کہ کل اسکرین پر نظر آنے والے ایک رکن کے بارے میں بھی بتائیں جو پچھلے تین سال میں اس حکومت کی نالائقی، نااہلی اور مہنگائی کے خلاف بات نہیں کر رہے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ ان کا حق ہے کہ وہ عدم اعتماد میں شریک ہوں اور اپنا ووٹ استعمال کریں لیکن ملک کا وزیراعظم اور دیگر وزیر دھمکی دے رہے ہیں کہ انہیں ووٹ استعمال کرنے نہیں دیں گے، یہ نہ صرف غیرجمہوری کام ہے بلکہ غیرآئینی کام ہے کیونکہ آئین کا آرٹیکل 6 بہت واضح ہے۔
چیئرمین پی پی پی نے کہا کہ خان صاحب جو دھمکی 27 تاریخ کی دے رہے ہیں کہ اگر کسی رکن کو ووٹ کا حق استعمال کرنے کے لیے جانا ہے تو ان کے کارکنوں کے درمیان سے گزر کر جانا ہوگا یہ بھی ایک دھمکی ہے۔
رکن قومی اسمبلی کا حق ہے جہاں چاہے ٹھہریں، خاص طور پر سندھ ہاؤس میں وہ جب مرضی رہ سکتے ہیں، حکومت کون ہوتی ہے کہ رکن قومی اسمبلی کہاں جو روکے، ہم ان کی دھمکیوں میں نہیں آئیں گے اور پیچھے نہیں ہٹیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم جمہوری اور پرامن لوگ ہیں، ہم نے اپنا آئینی حق استعمال کیا اور یہ ہمارا حق ہے ہم عدم اعتماد لے کر آئیں اور حکومت کا حق ہے کہ وہ ہمیں سیاسی اور جمہوری طریقے سے ناکام کرے۔
انہوں نے کہا کہ اس کا ایک طریقہ ہے کہ لاکھوں لوگوں کی بات کرنے کے بجائے، اپنے چند کارکنوں کو بھیج کر کسی ادارے پر حملے کے بجائے وہ اس دن 172 ارکان پیش کریں، آج پیش کریں اگر نہیں کرسکتے تو پھر استعفیٰ دو۔
انہوں نے کہا کہ اس طرح کی غنڈہ گردی کرنا پاکستان اور وزیراعظم کے عہدے کی توہین ہے، ہم اس کو برداشت نہیں کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ صاف اور شفاف الیکشن ضروری ہیں، ہم سمجھتے ہیں کہ 2018 کے انتخابات میں جو ہوا ہے وہ دوبارہ نہیں ہونا چاہیے۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ انتخابات میں دھاندلی کے لیے اصلاحات 2018 کے بعد انہوں نے کروائے ہیں، الیکشن کمیشن کے پر کاٹنے کی کوشش کی ہے، آرٹی ایس پلس ای وی ایم کے ذریعے ہم پر مسلط کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم عدم اعتماد کے بعد انتخابی اصلاحات کے ذریعے نئے انتخابات کی طرف بڑھانا چاہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم ایم کیو ایم کے تمام مطالبات مان چکے ہیں اور پرعزم ہیں ان کے ساتھ مل کر کام کریں، کراچی سمیت صوبے کی ترقی کے لیے جتنا ہوسکے مل کر کام کریں گے تو ملک کے لیے فائدہ ہوگا۔
پی پی پی وزیراعظم بنانے کے لیے مسلم لیگ (ن) کو زور دینے کے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ (ن) کی اکثریت ہے اور وزیراعظم کا امیدوار لانا ان کا حق ہے، پیپلز پارٹی وزیراعظم کے لیے اپنا امیدوار نہیں لائے گی۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں جتنا جلدی ممکن ہو انتخابی اصلاحات کرنی ہیں، ہم سب مل کر فیصلے کریں گے، اصلاحات کے لیے چند مہینے درکار ہوں گے۔
شہباز شریف کی جانب سے 5 سال کے لیے قومی حکومت کی تجویز پر ان کا کہنا تھا کہ 5 سال حکومت کی آپس میں بات نہیں ہوئی، اب تک ہماری بات چیت صرف انتخابی اصلاحات پر ہوئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اپوزیشن جماعتوں کا اجلاس ہے، وہاں شہباز شریف تجویز لاتے ہیں تو پھر اپنی پارٹی میں مشاورت کریں گے۔