اسلام آباد(سپیشل رپورٹر ) ایف آئی اے حکام کی جانب سے دباؤ اور دھمکیوں کا سامنا خاتون نے وفاقی محتسب میں درخواست دائر کر دی وفاقی محتسب نے 15اپریل کو فریقین کو طلب کرلیا۔ خاتون نے وفاقی محتسب میں درخواست دائر کی جس میں موقف اپنایا ہے کہ مدعیہ کو 19 مارچ 2025 کو ایف آئی اے سائبر کرائم سرکل اسلام آباد میں فیصل شکور عباسی اور ان کے والد عبدالشکور عباسی کی جانب سے درج کرائی گئی ایک شکایت کے سلسلے میں طلب کیا گیاجس کا سائبر کرائم سے کوئی تعلق نہیں تھا۔
مجھے بغیر قانونی جواز یا انکوائری کے مناسب دستاویزات کے گھنٹوں غیر قانونی طور پر بٹھائے رکھا گیا اور میری انکوائری خاتون کی بجائے ،مرد افسر کرتے رہے۔یہ معاملہ دبئی میں قائم ایک کمپنی سے متعلق ایک نجی کاروباری معاملہ ہونے کے باوجود جہاں میں فری لانس کام کرتی تھی ایف آئی اے حکام نے غیر قانونی طور پر مداخلت کی۔میں نے چند ماہ قبل پہلے ایف آئی اے میں درخواست دائر کی تھی جسے اب تک انٹرٹین ہی نہیں کیا گیا ہے جبکہ میرے خلاف درخواست بعد میں آئی اور اس کی انکوائری کیلئے مجھے بلا لیا گیا۔میری قانونی نمائندگی کی درخواست مسترد کر دی گئی اور انہیں ایف آئی اے حکام کی جانب سے دباؤ اور دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑا۔دوران تفتیش عمران حیدر (اے ڈی ایف آئی اے سائبر کرائم اسلام آباد) نے ایک نجی کمرے میں پوچھ گچھ کے دوران دو بار میرا ہاتھ زبردستی پکڑاجس سے وہ غیر محفوظ اور ہراساں محسوس ہوئیں۔
انہوں نے تذلیل آمیز، فحش اور انتہائی نامناسب زبان استعمال کی اور شرمناک اور غیر متعلقہ سوالات پوچھے جن کا مقصد انہیں ذلیل اور رسوا کرنا تھا۔انہوں نے جھوٹے الزامات اور گرفتاری کی دھمکی دی اور دعویٰ کیا کہ انہیں غیر معینہ مدت تک حراست میں رکھنے کا مطلق اختیار حاصل ہے۔ عمران حیدر نے زبردستی ان کا موبائل فون چھین لیا اور دباؤ ڈال کر پاس ورڈ حاصل کیے۔انہوں نے بغیر کسی وارنٹ یا قانونی بنیاد کے ان کی نجی گفتگو، تصاویر، ای میلز اور خفیہ کاروباری ڈیٹا تک غیر قانونی رسائی حاصل کی ان کی موجودگی میں ان کی ذاتی چیٹس اور تصاویر کے اسکرین شاٹس لیے اور فوری طور پر مدعی فیصل شکور عباسی کے ساتھ شیئر کر دیے۔اس کے فوراً بعدفیصل شکور عباسی نے ان کے بھائی کو پیغام بھیجا جس میں ان کے خاندان کا مذاق اڑایا اور انہیں ذلیل کیا گیا جس سے ثابت ہوتا ہے کہ عمران حیدر نے انہیں مزید ہراساں کرنے کے لیے جان بوجھ کران کا ڈیٹا لیک کیا۔
عمران حیدر کے غیر قانونی اقدامات کی وجہ سے ان کے فون کا تمام ڈیٹا، بشمول ذاتی، مالیاتی اور پیشہ ورانہ ریکارڈ، اب مدعی اور اس کے خاندان کے پاس ہے۔اس نجی معلومات کو اب بلیک میل، ہراسانی اور مزید تذلیل کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔میری درخواست ہے کہ ان کا چوری شدہ ذاتی ڈیٹا بازیاب اور حذف کیا جائے جسے ایف آئی اے افسران نے غیر قانونی طور پر حاصل اور شیئر کیا تھا۔اس بدانتظامی میں ملوث ایف آئی اے سائبر کرائم افسران کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جائے اور اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ ایف آئی اے کے اختیارات کا ایسا غلط استعمال کسی دوسرے شہری کے خلاف کبھی نہ دہرایا جائے۔ اس حوالے سے عمران حیدر (اے ڈی ایف آئی اے سائبر کرائم اسلام آباد سے رابطہ کیا تو ان کا موقف تھا کہ یہ معا ملہ غلط فہمی کی بنا پر ہوا ہے در خواست میں خاتون نے جو الزامات لگائے ہیں غلط ہیں ۔