بھارت کے پاس پہلگام کے واقعے میں پاکستان کے ملوث ہونے کا معمولی سا بھی ثبوت ہے تو سامنے لائے مگر اس کے بات کوئی ثبوت نہیں ہے، لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری

راولپنڈی(نیوز رپورٹر)پاکستان کی مسلح افواج کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا ہے کہ بھارت کے پاس پہلگام کے واقعے میں پاکستان کے ملوث ہونے کا معمولی سا بھی ثبوت ہے تو سامنے لائے مگر اس کے بات کوئی ثبوت نہیں ہے، اسی طرح بھارت کے پاس اس دعوے کا بھی کوئی ثبوت نہیں ہے کہ پاکستان پچھلے 48 گھنٹے سے بھارتی سرزمین پر حملے کررہا ہے، یہ سب من گھڑت الزامات ہیں، شواہد پیش کرنے کی بجائے بھارت نے مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کو نشانہ بنانا شروع کر دیا ہے ، 50 گھر بارود سے اڑا دیے گئے ہیں اور ڈھائی ہزار سے زائد کشمیریوں کو حراست میں لے لیا گیا ہے، بھارت اندرونی مسائل سے توجہ ہٹانے کیلئے پاکستان پرالزام لگا رہا ہے، اگر بھارت کو اتنی ہی خواہش ہے کہ پاکستان اس پر حملہ کرے تو بے فکر رہیں ہم اس کی یہ خواہش ضرور پوری کریں گے اور اپنے وقت اور اپنی مرضی کے مطابق جواب دیں گے۔

وہ جمعہ کو پاکستان ایئر فورس (پی اے ایف) کے ڈائریکٹر جنرل پبلک ریلیشنز (ڈی جی پی آر) ایئر وائس مارشل اورنگزیب احمد اور ڈپٹی چیف آف نیول اسٹاف (آپریشنز) وائس ایڈمرل راجہ ربنواز کے ہمراہ اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ سب سے پہلے پہلگام واقعے کے حوالے سے بتاؤں گا، اگر پہلگام کی لوکیشن کو دیکھیں، اس کا زمینی فاصلہ 230 کلومیٹر ہے، یہ اس تناظر میں ہے کہ بھارت کی جانب سے الزام عائد کیا جارہا ہے کہ دہشتگرد سرحد پار سے آئے تھے۔ یہ پہاڑی علاقہ ہے، پہلگام میں جہاں یہ واقعہ ہوا، وہ جگہ سٹرک سے تقریباً 5.3 کلومیٹر دور ہے اور اس کا پولیس اسٹیشن سے فاصلہ 1.2 کلومیٹر ہے۔

انہوں نے سلائیڈ پر واقعے کی ایف آئی آر دکھاتے ہوئے کہا کہ پہلگام واقعہ 2 بج کر 20 منٹ پر ہوا جبکہ 2 بج کر 30 منٹ یعنی صرف 10 منٹ بعد پولیس جائے وقوع پر جاتی ہے، تفتیش کرکے واپس آتی ہے اور مقدمہ درج کر لیا جاتا ہے جبکہ ایک طرف کا راستہ 30 منٹ کا ہے، تو ایسا کرنا انسانی طور پر ممکن ہی نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ ایف آئی آر کے متن میں کہا گیا ہے کہ لوگ سرحد پار سے آئے تھے، تو 10 منٹ میں انہوں نے نتیجہ اخذ کر لیا، جبکہ مزید کہا گیا کہ اندھادھند فائرنگ کی گئی۔ اس حوالے سے سنجیدہ سوالات جنم لیتے ہیں، اس کے بعد تقریباً 3 بجے کے بعد بھارت میں سوشل میڈیا ہینڈلز نے کہنا شروع کیا کہ پاکستان نے پہلگام پر حملہ کیا،

مطلب انہیں پتا تھا کہ کیا ہوا، لیکن اس کا ثبوت کہاں ہے؟ بھارتی ٹی وی چینلز نے بھی یہی کہنا شروع کر دیاکہ اس حملے میں پاکستانی دہشتگرد ملوث ہیں۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ یہ باتیں بار بار بتانا اس لیے ضروری ہیں کہ یہ بنیاد ہے، جس کی وجہ سے آج ہم فوجی صورتحال دیکھ رہے ہیں، اسی کی وجہ سے بے گناہ بچوں اور خواتین کو شہید کیا جارہا ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے اس واقعے کے حوالے سے مقبوضہ کشمیر کے شہریوں کی گفتگو چلائی جس میں وہ واقعے پر سوالات اٹھا رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ ’یہاں پر سب سے زیادہ (بھارتی) فوج ہے، اگر کوئی پوسٹ شیئر کرے گا تو اس کو رات میں ہی اٹھالیں گے،

اتنی بھارتی فوج ہے تو وہ کیا کر رہی ہے؟ ایک اور شہری نے کہا کہ منصوبہ بنا کر ایسا نہ کرو، کیا یہ سیکیورٹی کی ناکامی نہیں ہے؟انہوں نے کہا کہ بھارتی حکومت کے پاس شہریوں کے سوالات کے کوئی جوابات نہیں تھے، اس لیے انہوں نے توجہ ہٹانے کے لیے ایسا کیا اور پاکستان پر حملہ کر دیا۔انہوں نے کہا کہ بھارت نے ہزاروں ٹوئٹر ہینڈلز اور سوشل میڈیا سائٹس پر پابندی لگادی، انہوں نے پاکستان کے تمام تر ڈیجیٹل میڈیا پر بھارت میں پابندی لگادی تاکہ ان کے عوام صرف وہی سنیں جو وہ بتانا چاہتے ہیں، بھارت کے پاس کوئی ثبوت نہیں ہے کہ پہلگام واقعے میں کون ملوث ہے،

یہ آپ نہیں جانتے تو آپ نے فوجی محاذ کھول لیا۔لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف نے سوال اٹھایا کہ کیا یہ پہلی بار ہے کہ بھارت نے ایسا کیا ہے کہ دہشتگردی کے واقعے کو سیاسی مفادات کے لیے استعمال کیا؟ نہیں اس کی ایک تاریخ ہے۔انہوں نے سال 2000 میں چتی سنگ پورا واقعے کے حوالے سے لیفٹیننٹ جنرل (ر) کے ایس گل کا بیان سنوایا، جس میں وہ کہہ رہے ہیں کہ “انہوں نے پورا منصوبہ بنایا، تمام متعلقہ معلومات جمع کیں، ان کی روٹین کیا ہے، کتنے مرد اور خواتین ہیں، ہتھیار کتنے ہیں اور اچانک ایک رات کہا کہ سارے باہر چیکنگ کے لیے آؤ، ہم نے کہا تھا اس میں بھارتی فوج ملوث تھی، جبکہ بی جے پی کی حکومت پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا کرنا چاہتی تھی”۔اس بیان پر روشنی ڈالتے ہوئے ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ بھارت کی معصوم لوگوں کو مارنے کی تاریخ رہی ہے تاکہ سیاسی مقاصد حاصل کیے جاسکیں۔

انہوں 2019 میں پلوامہ واقعے پر اُس وقت کے گورنر مقبوضہ کشمیر ستیا پال ملک کا بیان سنوایا، جس میں وہ کہہ رہے ہیں کہ وہ اس واقعے کو انتخابات کے لیے استعمال کرنا چاہتے تھے کہ یہ پاکستان نے کیا اور ہمارے جوان مارے گئے اور اب انہیں ہرائیں گے اور یہ حکومت کی چالو پالیسی تھی ۔لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری کہا کہ اسی لیے ہم کہتے ہیں کہ یہ ڈراما اور پاکستان سے سرحد پار دہشت گردی اور جہادی تنظیموں کی حمایت کے من گھڑت الزامات کی بنیاد پر فوجی کارروائی کا سلسلہ بند ہونا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ اسی لیے حکومت پاکستان نے کہا ہے کہ اگر آپ کے پاس کوئی شواہد ہیں تو وہ ایک آزاد اور غیرجانبدار کمیشن میں پیش کریں اور پھر اسے ان شواہد کا جائزہ لینے دیں، آپ کو جج، جیوری اور سزا دینے کا اختیار کس نے دیا ہے۔ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ بھارتی فوج غلطی سے سرحد پار کرجانےو الے پاکستانیوں اور کشمیریوں کو پکڑ کر قید کرلیتے ہیں، پھر ان پر تشدد کرکے مار دیا جاتا ہے اور انہیں درانداز اور دہشت گرد قرار دے دیا جاتا ہے۔انہوں نے غیرملکی صحافیوں کو ایک بچے اور اس کے اہل خانہ کی فوٹیج دکھا کر کہا کہ ضیا مصطفیٰ کو اکتوبر 2013 میں حراست میں لیا گیا تھا، پھر اسے اکتوبر 2021 میں دہشت گرد قرار دے کر شہید کردیا گیا۔انہوں نے کہا کہ اسی طرح پہلگام واقعے کے دو دن کے بعد شہریوں کو دہشت گرد قرار دے کر شہید کردیا ۔

ڈی جی آئی ایس پی آر نے ان افراد کے اہل خانہ کی گفتگو بھی حاضرین کو سنوائی جو کہہ رہے ہیں کہ دونوں بھائی مویشی ڈھونڈنے کے لیے ایل او سی کے قریب گئے تھے جنہیں بھارتی فوج نے فائرنگ کرکے شہید کردیا۔لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے غیرملکی صحافیوں سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ وہ جائیں اور ان حقائق کی تصدیق کریں۔ انہوں نے کہا کہ بھارتی فوج روزانہ کی بنیاد پر معصوم شہریوں کو قتل کرکے انہیں دہشت گرد قرار دے دیتی ہے، پھر من گھڑت اور بے بنیاد الزام پاکستان پر عائد کرکے اس کا پرچار عالمی میڈیا پر کیا جاتا ہے اور پھر یہ کہتے ہیں کہ ہم حملہ کردیں گے، بھارت نے یہی کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ دہشت گردی تو پاکستان میں ہورہی ہے اور روزانہ ہورہی ہے اور بھارت دہشت گردی کو اسپانسر کر رہا ہے۔

ڈی جی آئی ایس پی آر نے بھارتی وزیراعظم سمیت کئی بھارتی عہدیداروں کے کلپس دکھائے جو پاکستان کے خلاف زہر اگل رہے تھے، اس کے بعد بھارتی بحریہ کے افسر کلبھوشن یادو کا کلپ دکھایا گیا جس میں وہ پاکستان میں دہشت گردی کروانے کا اعتراف کررہا ہے۔اس موقع پر ہتھیار ڈال دینے والے دہشت گردوں کے سرغنہ کی گفتگو دکھائی گئی جو کہہ رہا ہے کہ بلوچوں کی ہلاکتوں اور دہشت گردی کی کارروائیوں کے پس پردہ بھارت کا ہاتھ ہے۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ بھارت کا نیٹ ورک موجود ہے وہ دہشت گردوں کی تربیت اور انہیں ہتھیار فراہم کرتا ہے اور دہشت گردی کے کیمپ درحقیقت بھارتی سر زمین پر ہیں جہاں سے پاکستان میں دہشت گردی کو فروغ دیا جا رہا ہے۔

ڈی جی آئی ایس پی آر نے جعفر ایکسپریس پر حملے کی فوٹیج دکھاتے ہوئے کہا کہ بلوچ دہشت گردوں نے ویڈیو بنانے کے فوراً بعد بھارت بھیجی اور وہاں کے الیکٹرانک میڈیا پر سب سے پہلے چلائی گئی۔اس موقع پر بلوچ لبریشن آرمی کے ترجمان کی فوٹیج بھی دکھائی گئی جو بھارتی میڈیا پر اس واقعے کی ذمے داری قبول کرتے ہوئے اس کی تفصیلات بیان کررہا ہے۔انہوں نے کہا کہ بھارت کینیڈا اور دوسرے ممالک میں بھی دہشت گردی کی کارروائیاں کررہا ہے اور قتل کی کارروائیوں میں ملوث ہے۔

ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ حکومت پاکستان اور سیکیورٹی ایجنسیاں ان دہشت گردوں کے گرد روز بہ روز گھیرا تنگ کررہی ہیں، اور اس ( پہلگام واقعے ) کا مقصد انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں سے سکیورٹی ایجنسیوں کی توجہ ہٹانا بھی تھا، ہم یہ جانتے ہیں کیونکہ ہمارے پاس اس کے ناقابل تردید شواہد موجود ہیں کیونکہ پہلگام حملے کے بعد 100 سے زیادہ دہشت گرد پاکستان میں داخل ہوئے تھے جنہیں بھارتی انٹیلی جنس ایجنسیوں نے دہشت گردی کرنے کے لیے بھیجا تھا، ان میں سے 71 دہشت گردوں کو ہلاک کردیا گیا تھا۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے غیرملکی صحافیوں کو ایک دہشت گرد اور بھارتی فوج کے میجر سندیپ کے درمیان پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائی کے لیے ہونے والی گفتگو سنوا کر کہا آپ نے سن لیا کہ پاکستان میں دہشت گردی کون کر رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ بھارتی حکومت سینما اور ڈراموں کی دنیا سے باہر آئے، ڈرامے کرنے بند کرے اور حقیقت کا سامنا کرے۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ جنوری 2024 سے پاکستان میں دہشت گردی کے 3700 واقعات ہوئے ہیں جن میں 1314 پاکستانی شہری شہید اور 2582 زخمی اور معذور ہوئے، دہشت گردی کی یہ تمام کارروائیاں بھارت نےانجام دیں، اور پھر آپ کے پاس پہلگام کے واقعے کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ پاکستان دہشت گردی کے سامنے دیوار ہے اور ہم دہشت گردی کا سامنا کررہے ہیں، جنوری 2024 کے بعد سے اب تک 77816 انسداد دہشت گردی کے آپریشن ہوئے ہیں، ہم روزانہ دہشت گردوں سے لڑ رہے ہیں اور بھارت اپنے مفادات کے لیے دہشت گردی کی پشت پناہی کررہا ہے۔

ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ پاکستان نہ صرف اپنے عوام بلکہ دنیا کے لیے دہشت گردی سے لڑ رہا ہے اور بھارت اس راہ میں رکاوٹ بننا چاہتا ہے، آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ خطے اور دنیا کے لیے اس کے نتائج کیا ہوں گے۔انہوں نے کہا کہ پہلگام واقعے کے شواہد پیش کرنے کے بجائے اس واقعے کی آڑ میں بھارت نے کشمیر کے مسلمانوں کو نشانہ بنانا شروع کردیا، 50 گھر بارود سے اڑا دیے گئے ہیں اور ڈھائی ہزار سے زائد کشمیریوں کو حراست میں لے لیا گیا ہے، کشمیر میں بھارت اب یہ کررہا ہے۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ انتہا پسندی اور دہشت گردی بھارت کے داخلی مسائل ہیں مگر اقلیتوں کے خلاف جبر اور ہندوتوا کے فروغ کا سدباب کرنے کے بجائے بھارت پاکستان اور دیگر ممالک پر الزام تراشی کررہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ کشمیر بھارت کا داخلی مسئلہ نہیں ہے بلکہ دو ممالک کے درمیان بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ متنازع خطہ ہے جس کی قسمت کا فیصلہ وہاں کے عوام نے کرنا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ پہلگام واقعہ ہوتا ہے اور آپ (بھارت) کوئی ثبوت فراہم نہیں کرتے، آپ من گھڑت اور جھوٹا بیانیہ بنانا شروع کرتے ہیں، اور اس کی بنیاد پر حملہ کرتے ہیں، انہوں نے 6 اور 7 مئی کی رات پاکستان کے متعدد مقامات پر حملے کیے، جس میں 33 افراد شہید ہوئے، جن میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے جبکہ 62 سویلین اور 14 فوجی جوان زخمی ہوئے۔لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف نے کہا کہ یہ انتہائی شرمناک ہے، بھارتی میڈیا کو دیکھیں کہ وہ حملوں پر اس طرح جشن منا رہے ہیں،

آپ 2 سال کے بچوں کو مار کر اسے قومی فتح قرار دے رہے ہیں؟انہوں نے شہید بچوں کی تصاویر دکھاتے ہوئے کہا کہ انہیں یاد رکھیں، بھارت نے معصوم بے گناہ بچوں کو شہید کیا ہے، انہوں نے مریدکے میں شہید مسجد اور قرآن کے نسخے دکھاتے ہوئے کہا کہ کونسا مذہب اس کی اجازت دیتا ہے؟ کونسا جنیوا کنونشن اور یو این کنونشن اس کی اجازت دیتا ہے؟ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ 6 اور 7 مئی کو بھارتی جنگی جہاز بڑی تعداد میں آئے، ہم نے 3 رافیل، ایک مگ 29 اور ایک ایس یو 30 کو مار گرایا، اسی طرح بھارت نے لائن آف کنٹرول پر بلااشتعال فائرنگ کی، جس میں خصوصی طور پر شہریوں کو نشانہ بنایا گیا۔انہوں نے کہا کہ ہم اس جارحیت کا مسلسل جواب دے رہے ہیں اور ہم صرف بھارتی فوج کی پوسٹس کو نشانہ بنا رہے ہیں،

ہم بہت محتاط ہیں کیونکہ ہم بے گناہ شہریوں کو نشانہ بنانے پر یقین نہیں رکھتے۔ان کا کہنا تھا کہ بھارتی حملوں کا ایک مقصد پاکستان میں جاری انسدادِ دہشتگردی آپریشن سے توجہ ہٹانا تھا، تاکہ پاکستان میں دہشتگرد اپنی کارروائیاں بڑھا سکیں۔انہوں نے کہا کہ جب ہم حملہ کریں گے تو ہمیں بھارتی ٹی وی چینلز کی ضرورت نہیں کہ وہ اسے رپورٹ کریں، اس کی آوازیں ہر جگہ سنائی دے گی۔ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ بھارت نے آج بھی اسرائیلی ساختہ ہیروپ ڈرون بھیجے، ہم نے اب تک 77 ڈرون مار گرائے ہیں،

انہوں نے کہا کہ ایک بھی ڈرون واپس بھارت نہیں جا سکے گا، ہم سب کو تباہ کر دیں گے۔انہوں نے کہا کہ ہم اپنی سلامتی اور خودمختاری کا ہر صورت میں دفاع کریں گے اور ہم ایسا کر رہے ہیں۔لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف کا کہنا تھا کہ یہ انتہائی خطرناک صورتحال ہے کہ 7 اور 8 مئی کی رات 4 پروجیکٹائل فائر کیے گئے، جو لانگ رینج میزائل تھے، جن میں سے 3 نے بھارتیوں کی جانب سے بھارت کے اندر امرتسر کو نشانہ بنایا، جبکہ ایک سرحد پار کرکے پاکستانی فضائی حدود میں آیا، جسے مار گرایا گیا۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ بھارت مسلسل یہ پروپیگنڈا کررہا ہے کہ پاکستان نے مختلف مقامات پر حملے کیے ہیں اور کررہا ہے، یہ سب من گھڑت باتیں ہیں، اگر بھارت نے پاکستانی طیارے اور ڈرون گرائے ہیں تو کم از کم ان کا ملبہ ہی دکھادیں۔

انہوں نے کہا کہ اگر بھارت کو اتنی ہی خواہش ہے کہ پاکستان اس پر حملہ کرے تو بے فکر رہیں ہم اس کی یہ خواہش ضرور پوری کریں گے اور اپنے وقت اور اپنی مرضی کے مطابق جواب دیں گے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ میں نے ایسی خبریں سنی ہیں کہ پاک۔بھارت قومی سلامتی کے مشیران کا براہ راست رابطہ ہوا ہے، میں اس بات کی تصدیق کرتا ہوں کہ ان کے درمیان کوئی بات چیت نہیں ہوئی۔پاکستان کی جانب سے بھارت پر جوابی حملے سے متعلق ایک سوال کے جواب میں لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف کا کہنا تھا کہ کشیدگی کون بڑھا رہا ہے؟ کون اشتعال پر اشتعال دلا رہا ہے؟ کیا یہ نیا معمول بنانا چاہتے ہیں کہ جب بھی وہ چاہیں سرحد پار حملہ کردیں اور کبھی بھی ڈرونز بھیج کر شہریوں کو ہراساں کریں، بھارت یہاں پر دہشتگردی کرے،

آپ پاکستان کے بارے میں کیا سمجھتے ہیں کیا ہم اس کی اجازت دیں گے؟انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس پاکستان کے عوام، ملکی سلامتی کا دفاع کرنے کا حق ہے، ہم اب تک اپنا دفاع کر رہے ہیں اور ہمیں بڑی کامیابیاں ملی ہیں، وہ ایل او سی پر فائرنگ کرتے ہیں، ہم بھرپور جوابی کارروائی کرتے ہیں، جب وہ فضا میں آتے ہیں، ان کو ردعمل ملتا ہے۔ ہم اپنی مرضی کے وقت، جگہ اور طریقہ کار کے مطابق حملہ کریں گے۔اس موقع پر بات کرتے ہوئے پاک فضائیہ کے افسر نے کہا کہ ہم نے صرف 2 منٹ میں ردعمل دیا، بڑی تعداد میں بھارتی جنگی طیارے آئے،

ہمارے جنگی جہاز پوزیشن پر موجود تھے، تقریباً 60 طیارے تھے جن میں 14 رافیل شامل تھے۔ان کا کہنا تھا کہ ہماری طرف سے 42 جدید جنگی طیاروں نے فوری ردعمل دیا، ہماری حکمت عملی تھی کہ اپنی اسٹرینتھ کے مطابق لڑیں، ہمارے پاس ایک پلان تھا، انہیں ایسا لگتا تھا کہ ان کے پاس رافیل ہے، ہم نے اسی کو ٹارگٹ کیا۔انہوں نے کہا کہ یہ سلسلہ تقریباً ایک گھنٹے چلا، بڑی تعداد میں لڑاکا طیارے واپس چلے گئے۔