اسلام آباد(سٹٍاف رپورٹر)وزارت بحری امور کے زیر اہتمام، وفاقی وزیر جنید انوار چوہدری کی ہدایت پر، اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک و زراعت (FAO) کے تعاون سے پشاور میں قومی ماہی گیری و آبی زراعت پالیسی پر ایک اہم ورکشاپ کا انعقاد کیا گیا۔ ورکشاپ کا مقصد پاکستان میں ماہی گیری کے شعبے کو پائیدار بنیادوں پر ترقی دینا، قومی معیشت میں اس کے کردار کو بڑھانا اور برآمدات میں اضافہ کرنا تھا۔ورکشاپ میں مقررین نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان میں ماہی گیری کے شعبے کو منظم انداز میں فروغ دینے کے لیے ایک مربوط قومی حکمت عملی کی فوری ضرورت ہے۔ ورکشاپ ملک گیر مشاورتی عمل کا حصہ ہے جس کے تحت آئندہ اجلاس 20 مئی کو لاہور اور 22 مئی کو کراچی میں ہوں گے، جبکہ حتمی مشاورتی ورکشاپ جون میں اسلام آباد میں منعقد کی جائے گی۔
FAO کی نمائندہ لیونور فرنینڈز نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کے زرعی شعبوں میں تعاون جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ پالیسی شراکتی عمل، بہتر گورننس، قانونی اصلاحات اور تمام متعلقہ فریقین کی شمولیت کے ذریعے ماہی گیری کے شعبے میں مثبت سماجی و معاشی تبدیلی کا ذریعہ بنے گی، FAO کے سینئر پالیسی ماہر ڈاکٹر کنور محمد جاوید اقبال نے پالیسی کا مسودہ پیش کرتے ہوئے ایک جامع فریم ورک متعارف کرایا جس کا مقصد قدرتی وسائل کا ذمہ دارانہ استعمال اور مضبوط گورننس ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ پالیسی معاشی، سماجی اور ماحولیاتی توازن کے اصولوں پر مبنی ہے ، فشریز ڈویلپمنٹ کمشنر میاں آفتاب علی شاہ نے وفاقی حکومت کی جانب سے صوبائی ماہی گیری محکموں کو بااختیار بنانے اور اس شعبے کی ترقی کے لیے بھرپور تعاون کی یقین دہانی کروائی۔ انہوں نے لاہور اور کراچی میں ہونے والی آئندہ ورکشاپس کی بھی تصدیق کی۔
گلگت بلتستان اور آزاد جموں و کشمیر سے آئے ہوئے ماہی گیری محکموں کے نمائندوں نے پالیسی کی سمت کو سراہا اور مالیاتی نظام، اخراجات کے تجزیے اور میٹھے پانی کے ذخائر کے انتظام سے متعلق قیمتی تجاویز پیش کیں ، ورکشاپ کے دوران منعقدہ ورکنگ گروپ سیشنز اور پینل مباحثے میں مختلف ماہرین بشمول پلیانیٹ پلس کے بانی خالد خان، ڈاکٹر ضیغم حسن اور فشریز ڈویلپمنٹ بورڈ کے سی ای او جنید وٹو نے شرکت کی اور ماہی گیری کے شعبے کی ترقی سے متعلق عملی تجاویز پیش کیں ورکشاپ میں اسلام آباد، خیبرپختونخوا، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر سے 70 سے زائد شرکاء نے شرکت کی، جن میں سرکاری، نجی، تعلیمی و سماجی شعبوں کے نمائندگان شامل تھے یہ مشاورتی عمل پاکستان میں ایک پائیدار، جامع اور معاشی طور پر مستحکم ماہی گیری کے نظام کی تعمیر کی جانب ایک اہم قدم ہے، جس سے مقامی اور بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی پوزیشن کو تقویت ملے گی۔