اسلام آباد پولیس نے جدید تفتیشی تکنیک ، تیز تر کارروائی کا استعمال کرتے ہوئے سردار فہیم کے ہائی پروفائل قتل سمیت اندھے قتل کے کئی کیسز کا کامیابی سے سراغ لگایا . طلال چوہدری

اسلام آباد ( سٹاف رپورٹر)وزیر مملکت برائے داخلہ طلال چوہدری نے کہا ہے کہ اسلام آباد پولیس نے جدید تفتیشی تکنیک اور تیز تر کارروائی کا استعمال کرتے ہوئے سردار فہیم کے ہائی پروفائل قتل سمیت اندھے قتل کے کئی کیسز کا کامیابی سے سراغ لگایا ہے ، لوگوں کی جان و مال کا تحفظ حکومت کی ترجیح ہے،جرائم کی شرح کم کرنے کے لئے تمام وسائل بروئے کار لا رہے ہیں،اسلام آباد پولیس فرض شناسی سے جرائم کے خاتمے کے لئے کوشاں ہے۔منگل کو یہاں آئی جی اسلام آبادسید علی ناصر رضوی سمیت دیگر سینئر پولیس افسران کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر مملکت نے کہا کہ آئی جی اسلام آباد اور ان کی ٹیم کی ذمہ داری اور فرض ہے کہ وہ لوگوں کے جان و مال کا تحفظ کریں۔

انہوں نے کہا کہ گذشتہ چند ماہ میں کچھ کیس سامنے آئے ہیں ،ان میں ایک کیس سردار فہیم کا قتل تھا جوکہ ایک اندھا قتل تھا ،اس واقعہ سے نہ صرف لوگ پریشان ہوئے بلکہ یہ ایک اندو ہناک اور انتہائی افسوسناک واقعہ تھا مگر ہمارے قانون نافذ کرنے والے اداروں خصوصاً اسلام آباد پولیس نے فرض شناسی اور پیشہ وارانہ مہارت سے اس اندھے قتل کا سراغ لگایا،سو فیصد اس کے نتائج آئے ہیں وہ بھی قابل ستائش ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سردار فہیم کا قتل بھی ایک اندھا قتل تھا ،اس واقعہ میں پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے گزشتہ رات ملزمان کوگرفتار کر لیا، اس واقعہ میں ڈی آئی جی ، ایس ایس پی انویسٹی گیشن ، آپریشنز اور ڈی ایس پی سی آئی اے، ایس پی سٹی اور ان کی تمام ٹیم نے اہم کردار ادا کیا ۔

انہوں نے کہا کہ سردار فہیم کا قتل پہلا کیس نہیں ہے بلکہ اس سے پہلے اسلامی یونیورسٹی کی 22 سالہ طالبہ ایمان ،17 سالہ ثناء یوسف ،ایک غیر ملکی خاتون کا ریپ کیس ،تین سالہ بچے کا اغوا، دو خواتین کا تھانہ لوئی بھیر میں قتل کیس،حمزہ خان قتل کیس اور اسی طرح اشتیاق احمد عباسی قتل کیس یہ سارے کے سارے بلائنڈ مرڈرز کو جس طرح پروفیشنلی ٹریس کیا گیا ، ان میں کئی کیسز کو 24 گھنٹےکے اندر بھی حل کیا گیا جیسے 17 سالہ ثناء یوسف کا قتل ہوا تو 24 گھنٹے سے کم وقت میں نہ صرف ملزمان پکڑے گئے بلکہ ان ملزمان کو اسلام آباد سے تین ساڑھے تین سو کلومیٹر دور سے گرفتار کیا گیا۔

پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے آئی جی اسلام آباد سید علی ناصر رضوی نے تفصیلات بتاتے ہوئےکہا کہ سردار فہیم قتل کیس ہمارے لئے ایک بہت بڑا ٹیسٹ کیس تھا ، سردار فہیم کو جس بےدردی سے قتل کیا گیا اور ان کے گھر میں سامان جس طرح بکھرا پڑا تھا اس میں ہمارے لئے ضروری تھا کہ اس کیس کو صحیح طریقے سے منطقی انجام تک پہنچایا جائے۔ آئی جی نے کہا کہ عوام کی جان و مال کی حفاظت کرنا ہمارا فرض ہے، یہ اندھے قتل انتہائی افسوسناک تھے لیکن ہمارے افسران کی پیشہ وارانہ مہارت اور احساس ذمہ داری کی بدولت ہر ایک کیس کو حل کر لیا گیا ہےجس کے سو فیصد نتائج برآمد ہوئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ جن مقدمات کا حوالہ دیا گیا ان میں سردار فہیم، 22 سالہ یونیورسٹی کی طالبہ ایمان، 17 سالہ ثناء یوسف کا قتل، تین سالہ محمد اذلان کا اغوا، ایک غیر ملکی خاتون کے ساتھ زیادتی اور قتل، لوئی بھیر تھانہ کے قریب دو خواتین کا دوہرا قتل اور سماجی کارکن احمد حمزہ خان کی ٹارگٹ کلنگ شامل ہیں، ہر ایک ابتدائی طور پر ایک اندھا کیس تھا جس میں کوئی واضح سمت نہیں تھی ، بہت سے کیسز 24 گھنٹوں کے اندر اندر ٹریس کئے گئے ۔انہوں نے کہا کہ سردار فہیم کے قتل نے خاص طور پر ایک پیچیدہ اور الجھا دینے والا چیلنج دیا، 25 جون کی رات فہیم اپنے گھر کے اندر مردہ پائے گئے، ہر طرف سامان بکھرا پڑا تھا، شواہد بکھرے ہوئے تھے اور مقصد واضح نہیں تھا، سی سی ٹی وی فوٹیج سے کچھ بھی نتیجہ خیز نہیں نکلا ۔

انہوں نے کہا کہ ڈی آئی جی جواد قمر نے ایک بڑے آپریشن کی قیادت کی جس میں 11 پروفیشنل ٹیمیں شامل تھیں، ایس ایس پی انویسٹی گیشن عثمان نے چھ ٹیموں کا چارج سنبھالا، ایس ایس پی آپریشنز شعیب نے پانچ ٹیموں کی قیادت کی، ٹیموں میں ماہرین، تجربہ کار تفتیش کار، انٹیلی جنس افسران یہاں تک کہ مضبوط مقامی معلومات رکھنے والے ٹریفک کانسٹیبل بھی شامل تھے، ڈی ایس پی سلمان شاہ کی سربراہی میں سی آئی اے کا یونٹ بھی متحرک ہوگیا۔انہوں نے کہا کہ سب سے پہلے جائے وقوعہ کو محفوظ بنانا تھا ، اس کے بعد ایک جامع تحقیقات سامنے آئیں جو اسلام آباد اور راولپنڈی، اٹک، پشاور سے آگے تک پھیلی ہوئی تھی۔

تفتیش کاروں نے جائے وقوعہ کے قریب زیر تعمیر عمارتوں کا معائنہ کیا، گھریلو عملے سے پوچھ گچھ کی اور آس پاس کے مزدوروں اور ملازمین کے مجرمانہ ریکارڈ کا جائزہ لیا۔ انہوں نے جدید ترین ڈیجیٹل ٹولز کا استعمال کرتے ہوئے کام کیا، مجموعی طور پر سی سی ٹی وی 271 فیڈز کا جائزہ لیا گیااور 29 مقامات پر جیو فینسنگ کی گئی، 4,100 سے زیادہ فون کال ریکارڈز کا تجزیہ کیا گیا۔57 مشتبہ افراد سے براہ راست پوچھ گچھ کی گئی اور اڈیالہ، کوٹ لکھپت اور کیمپ جیل سمیت پنجاب کی مختلف جیلوں میں 200 سے زائد معروف مجرموں سے کراس چیک کیا گیا۔

ایکسٹریم ایج جیسے انٹیلی جنس سافٹ ویئر کے ذریعے جمع کئے گئے ڈیٹا اور عباس جیسے آئی ٹی ماہرین کی کوششوں کی بنیاد پر نو ٹارگٹڈ چھاپے مارے گئے۔ دارالحکومت سے تقریباً 350 کلومیٹر دور گوجرانوالہ، سرگودھا اور چنیوٹ میں بیک وقت کارروائیاں کی گئیں اور دونوں ملزمان کو گرفتار کر لیا گیا۔ واردات میں استعمال ہونے والا اسلحہ مسروقہ سامان سمیت برآمد کر لیا گیا۔ قتل کی رات دونوں ملزمان ڈکیتی کی نیت سے سردار فہیم کے گھر میں داخل ہوئے، فہیم نے مزاحمت کی،

مزاحمت پر اسے کئی بار ڈنڈے سے مارا گیا اور بعد میں باندھ کر تشدد کا نشانہ بنایا گیا، ملزمان نے فرار ہونے سے قبل گھر میں توڑ پھوڑ کی۔یہ کیس جو کبھی اندھا معمہ بنا ہوا تھا، اتفاق سے نہیں بلکہ اسلام آباد پولیس کی انتھک اور مربوط کوششوں سے حل ہوا۔