آئینی صورتحال پر ازخود نوٹس کے حوالے سے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا ہے کہ فیصلہ آج رات ساڑھے سات بجے سنائیں گے،وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد مسترد ہونے پر ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ایک بات توہمیں نظر آرہی ہے اور وہ یہ کہ رولنگ غلط ہے، تحریک عدم اعتماد کے دوران اسمبلیاں تحلیل کرنا آئین کے منافی ہے، یہ مفاد عامہ کا کیس ہے ، رولنگ کو ختم کرکے دیکھیں گے آگے کیسے چلنا ہے۔
چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ کیس کی سماعت کر رہا ہے، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس مظہر عالم میاں خیل اور جسٹس جمال خان مندوخیل بھی بینچ میں شامل ہیں۔
دوران سماعت چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آرٹیکل55 کے مطابق اسمبلی میں تمام فیصلےہاؤس میں موجود اراکین کی اکثریت سے ہوں گے، ایک بات توہمیں نظر آرہی ہے اور وہ یہ کہ رولنگ غلط ہے، بتائیں اگلا مرحلہ کیا ہوگا، اسمبلی تحلیل نہ ہوتی تو ممکن تھا اپوزیشن کچھ کرلیتی، اصل مسئلہ اسمبلی تحلیل ہونے سے پیدا ہوا، تحریک عدم اعتماد کے دوران اسمبلیاں تحلیل نہیں کی جاسکتیں، تحریک عدم اعتماد کے دوران اسمبلیاں تحلیل کرنا آئین کے منافی ہے۔
اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے کہا کہ کسی رکن اسمبلی کو عدالتی فیصلے کے بغیر غدار نہیں کہا جاسکتا، ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کا دفاع نہیں کروں گا، آج اسمبلی دوبارہ بحال ہوگئی تو اس کامینڈیٹ وہ نہیں ہوگا جوپہلےتھی، میرا فوکس نئے انتخابات پر ہے، چار سال سلیکٹڈ کہنے والے آج اسی اسمبلی کا وزیراعظم بننا چاہتے ہیں، مناسب یہی تھا عمران خان عوام میں جاتے،وہی فیصلہ انہوں نے کیا۔
ا س سے قبل سماعت کے آغاز پر ایڈوکیٹ جنرل پنجاب احمد اویس نے عدالت کو بتایا کہ پنجاب میں کل رات بہت الارمنگ صورتحال ہوگئی، گزشتہ رات حمزہ شہبازکو نجی ہوٹل میں وزیراعلیٰ بنا دیاگیا، آج سابق گورنرپنجاب حمزہ شہباز سے باغ جناح میں حلف لینے والے ہیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم ان پروسیڈنگز میں پنجاب اسمبلی کو ٹچ نہیں کر رہے۔