اسلام آباد (سٹاف رپورٹر )جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے حالیہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کے مشترکہ اعلامیہ کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ یہ اعلامیہ درحقیقت اسرائیل کی توسیع کا فارمولا ہے، نہ کہ فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے یا بیت المقدس کی آزادی کا کوئی سنجیدہ حل ، مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ “حماس عوام کی ایک منتخب جماعت ہے، لہٰذا اُسے نظر انداز کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ عالمی قوتیں فلسطینی عوام پر زبردستی اپنی مرضی کا حل مسلط کرنا چاہتی ہیں۔”
انہوں نے مزید کہا کہ “اس وقت امریکہ نے اپنے تمام بیانیے میں حماس کو عملاً خارج کر دیا ہے، جبکہ اصل فریق حماس ہی ہے۔ حماس کو نظرانداز کرکے فلسطین کا مسئلہ کبھی بھی حل نہیں ہو سکتا۔ مولانا نے امریکہ پر بھی کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا: “تعجب ہے امریکہ پر کہ وہ کس ڈھٹائی کے ساتھ ایک مجرم یعنی نیتن یاہو کی پشت پناہی کر رہا ہے، جسے عالمی عدالت انصاف نے مجرم قرار دیا ہے۔ کسی مجرم کی حمایت کرنے والا خود بھی اس جرم میں برابر کا شریک ہوتا ہے۔ انہوں نے موجودہ حکومت اور عسکری قیادت پر بھی سوالات اٹھائے اور کہا کہ “جنرل عاصم منیر اور وزیر اعظم شہباز شریف کو اپنے بیانات پر غور کرنا چاہیے کہ اُن میں کس قدر تضاد پایا جاتا ہے۔”
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ جب تک فلسطینی عوام خود کوئی فیصلہ نہ کریں، تب تک اُن پر کسی بیرونی قوت کی خواہش مسلط نہیں کی جا سکتی۔ “دو ریاستی حل صرف ایک مشورہ یا خواہش ہو سکتی ہے، لیکن کسی کو یہ حق نہیں کہ وہ اپنی مرضی فلسطینیوں پر تھوپے مولانا نے کہا کہ اسرائیل فلسطین کے وجود کو تسلیم نہیں کرتا اور فلسطین اسرائیل کو، ایسے میں زبردستی کا کوئی بھی حل ناانصافی کے مترادف ہوگا انہوں نے ٹرمپ اور نیتن یاہو کی مشترکہ پریس کانفرنس کو عالمی انصاف کے اصولوں کی توہین قرار دیا اور کہا کہ یہ اقدام عالمی عدالت انصاف کے فیصلوں کو نظرانداز کرنے کے مترادف ہے۔