چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا ہے کہ آئین کا تحفظ ہمارا فرض ہے، آئین کی تشریح کر سکتے ہیں اور کریں گے۔
سپریم کورٹ میں آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے لیے دائر صدارتی ریفرنس پر سماعت چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ نے کی۔
چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے دوران سماعت ریمارکس دیے کہ ایک بات واضح ہونی چاہیے کہ ازخود نوٹس کا اختیار کسی کی مرضی سے استعمال نہیں ہوتا، ججز پر مشتمل بینچز چیف جسٹس سے درخواست کرتے ہیں اور ازخود نوٹس لیا جاتا ہے۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے اپنے ریمارکس میں مزید کہا کہ ڈپٹی اسپیکر رولنگ سے متعلق 12ججز نے کہا کہ آئینی معاملہ ہے تب از خود نوٹس لیا، تنقید کے باوجود مسکراہٹ کے ساتھ سب کو سُنیں گے۔
تحریک انصاف کے وکیل بابر اعوان نے کہا کہ عدالت عظمیٰ کا بڑا ادب اور احترام ہے، جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آپ کی ادب کی بات کی قدر کرتے ہیں، کاش یہ ادب اور احترام عام لوگوں میں بھی پھیلاتے، جس پر بابر اعوان نے کہا کہ اس کام کے لیے وزارت اطلاعات ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ لوگوں کو یہ بھی بتائیں کہ عدالت رات کو بھی کھلتی ہے، بلوچستان ہائیکورٹ رات ڈھائی بجے بھی کھلی تھی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جتنی مرضی تنقید کر لیں، آئین کا دفاع کرتے رہیں گے، اگر اپنی جماعت کے خلاف جانا باضمیر ہونا ہے تو بھی استعفیٰ ہی دینا چاہیے، ہم نے آرٹیکل 63 اے کی تشریح آئندہ نسلوں کے لیے کرنی ہے۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ پی ٹی آئی نے منحرف ارکان کے خلاف جو ریفرنس دائر کیا ہے ہمیں اس سے غرض نہیں ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ کی بےتوقیری کی اجازت کسی کو نہیں دیں گے، یاد رکھیں سب متاثرہ فریقین نے سپریم کورٹ ہی آنا ہے، جو فیصلہ پسند نہ آئے اس پر تنقید کی اجازت نہیں دیں گے۔
وکیل مسلم لیگ ق نے کہا کہ افواہ ہے حکومت نئے اٹارنی جنرل کی تعیناتی کے بعد حکومت شاید صدارتی ریفرنس واپس لے لے، جس پر چیف جسٹس نے کہا یقین ہے کہ وفاقی حکومت ریفرنس کی اہمیت سے واقف ہو گی، وفاقی حکومت ریفرنس کی تشریح کے راستے میں نہیں آئے گی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ موجودہ ریفرنس کے ساتھ آئینی درخواستیں بھی دائر کی گئی ہیں، نہیں چاہتے کہ ریفرنس پر رائے میں مزید تاخیر ہو۔
چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کہ مخدوم علی خان بیرون ملک سےکب واپس آئیں گے؟ مخدوم علی خان نے 17 مئی کو کیس سماعت کے لیے مقرر کرنے کا کہا تھا، جس پر معاون وکیل نے کہا کہ مخدوم علی خان 15 مئی کی شام کو واپس آئیں گے۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ نئے اٹارنی جنرل آ رہے ہیں؟ جس پر انہوں نے بتایا کہ اٹارنی جنرل کی تعیناتی کے کچھ معاملات باقی ہیں، نئے اٹارنی جنرل آرٹیکل 63 اے کی تشریح پر عدالت کی معاونت کرنا چاہتے ہیں۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت کے نوٹس میں چند باتیں لانا چاہتا ہوں، آرٹیکل 63 اے کے تحت منحرف اراکین کے خلاف ریفرنسز الیکشن کمیشن میں زیر التوا ہیں، الیکشن کمیشن منحرف اراکین سے متعلق 30 دن میں فیصلہ دے گا، ایک جماعت نے منحرف اراکین کے خلاف عدالت سے بھی رجوع کیا ہے۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ عدالت کو اس بات کا علم ہےکہ الیکشن کمیشن میں ریفرنسز زیر التوا ہیں، سپریم کورٹ کے پاس وقت ہے نا گنجائش کہ ہر منحرف رکن کے خلاف الگ الگ 5 ممبرز بینچ سماعت کرے۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آئین کی تشریح سپریم کورٹ کر سکتی ہے اور کرے گی، آرٹیکل 63 اے آئین کا حصہ ہے اور آئین کا تحفظ ہمارا فرض ہے، ازخود نوٹس کے باقاعدہ رولز مرتب کریں گے۔
تحریک انصاف کے وکیل بابر اعوان نے کہا کہ آئینی بحث میں عدالت کی معاونت کروں گا، اس بحث میں نہیں جانا چاہیے، وکالت میں اس سے مشکل حالات بھی دیکھے ہیں، آرٹیکل 63 اے اور 62 کو ملا کر پڑھا جائے۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ آئین بنیاد ہے اور وفاق کو متحد رکھتا ہے جبکہ جسٹس جمال خان مندوخیل نے پوچھا کہ کیا الیکشن کمیشن انحراف پر کسی رکن کو جھوٹا اور بددیانت قرار دے سکتا ہے؟
بابر اعوان نے کہا کہ الیکشن کمیشن کا اختیار ہے کہ کسی رکن کو بددیانت یا ایماندار قرار دے سکے، سب سے بڑے صوبے میں اراکین اسمبلی نےکھلے عام دوسری جماعت کو ووٹ دیے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے استفسار کیا کہ اگر مخلوط حکومت میں اراکین دوسری جماعت کو ووٹ دیں تو وہ بھی انحراف ہو گا؟
جسٹس جمال خان مندوخیل نے پوچھا کیا نااہلی صرف ایک پارلیمانی جماعت سے دوسری میں جانے سے ہی ہوتی ہے؟ اگر کوئی ایک حلقے سے منتخب ہو اور قانون سازی سے اسی حلقےکا نقصان ہو تو کیا وہ رکن رو کر چپ ہو جائے؟
پی ٹی آئی کے وکیل نے کہا کہ جو پارٹی کے نام پر جیت کر آئے اور لگے غلط جگہ پھنس گیا ہے تو وہ استعفیٰ دے دے، پاکستان میں استعفے دباؤ میں آکر بھی دیے گئے اور مرضی سے بھی، تحریک انصاف کے اراکین کسی اور کو ووٹ دے کر ابھی تک جماعت سے منسلک ہیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا سادہ سوال ہے انحراف پر ڈی سیٹ ہونے کے ساتھ نااہلی کی سزا ہونی چاہیےیا نہیں؟ انحراف پر ڈی سیٹ ہونے کا جو جرمانہ دیا گیا کیا عدالت اس کو بڑھا سکتی ہے؟
بابر اعوان نے کہا کہ یہ صورتحال اور کیس پہلی بار عدالت کے سامنے آیا ہے، اس کے لیے پنڈورا باکس کھول کر اندر سے ہی دیکھنا ہو گا، رات کو بیٹے کے ساتھ گپ شپ کی، باقی گزارشات کل کروں گا۔
جسٹس پاکستان نے بابر اعوان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کیس میں اٹھائے گئے نکات پر فوکس کریں، سینیٹ الیکشن کیس میں آپ کے موکل کی کوتاہی کا ذکر کریں گے، سینیٹ الیکشن کیس میں حکومت نے کارروائی کیوں نہیں کی؟
چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے سامنے احتجاج کرنے سے عدالت نوٹس نہیں لیتی، ریکوڈک کیس میں حکومت نے کرپشن کا ثبوت ہی نہیں دیا، ہمارے سامنے دونوں فریق ہوں تو فیصلہ دیتے ہیں۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ اسٹیل ملز کیس میں بھی سب ایگزیکٹو نے کیا، ریکوڈک کیس میں بھی ایگزیکٹو ذمہ داری ادا کرنے میں ناکام ہوئے، ہمارے سامنے درخواست لائیں پھر کارروائی ہو گی۔
تحریک انصاف کے وکیل بابر اعوان نے کہا کہ سینیٹ الیکشن کیس کے فیصلے پر عملدرآمد کی کوتاہی الیکشن کمیشن کی تھی، جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ کیا حکومت نے سینیٹ الیکشن کیس کے بعد درخواست دائر کی تھی۔
بابر اعوان نے بتایا کہ تمام اداروں کی توقیر برقرار رہنی چاہیے، صدر مملکت سے متعلق سخت ریمارکس دیے گئے، صدر مملکت پڑھے لکھے شخص ہیں اس لیے خاموش رہے۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ صدر سے متعلق ریمارکس پر تحفظات ہیں تو درخواست دائر کریں، دیکھیں ہم صدر مملکت کے ریفرنس کو کتنی اہمیت دے رہے ہیں۔
سپریم کورٹ نے آئین کے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے لیے دائر صدارتی ریفرنس کی سماعت منگل دن ساڑھے گیارہ بجے تک ملتوی کرتے ہوئے بابر اعوان کو ہدایت کی کہ کل ایک گھنٹے میں دلائل مکمل کریں۔
سپریم کورٹ نے بابر اعوان کی پی ٹی آئی کی جانب سے دائر پٹیشن پر فریقین کو نوٹس بھی جاری کر دیے۔