چین کے مرکزی بینک نے ایک بیان میں بتایا کہ پاکستان اور چین کے مرکزی بینکوں نے پاکستان میں چینی کرنسی یوآن میں لین دین کے حوالے سے تعاون کی یادداشت پر دستخط کیے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق یہ پیش رفت پاکستان کے لیے ادائیگی کے متبادل آپشن کی راہ ہموار کر سکتی ہے جس سے چینی اور پاکستانی کاروباری و مالیاتی اداروں کے درمیان سرحد پار لین دین کے لیے یوآن کے استعمال میں اضافہ ہو گا۔
مالیاتی شعبے میں اس پیش رفت کو ایک ایسی چیز کے طور پر دیکھا جا رہا ہے جس سے پاکستان کو رعایتی روسی تیل خریدنے میں بھی مدد مل سکتی ہے کیونکہ چینی کرنسی روس کے لیے قابل قبول ہے، خیال رہے کہ پاکستان اس وقت تیل کی ادائیگی امریکی ڈالر میں کر رہا ہے۔
ترجمان نے کہا کہ ’اس نرمی کو ان پابندیوں میں نرمی کی جانب قدم نہیں سمجھا جانا چاہیے جو امریکا نے رواں برس فروری میں یوکرین پر حملے کے ردعمل میں روس پر عائد کی تھیں‘۔
تاہم انہوں نے واضح کیا کہ ’ توانائی کے شعبے میں درآمدات کے حوالے سے دوسرے ممالک کو اپنی اپنی صورتحال کے مطابق فیصلے خود کرنا ہوں گے‘۔
یوکرین پر حملے کے بعد امریکا اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے پابندیوں کا شکار روس اپنی برآمدات اپنی ہی کرنسی روبل میں کرنے کے لیے کوشاں ہے۔
روس کی جانب سے بیرونی لین دین کے لیے اس کے علاوہ واحد ‘متبادل’ کرنسی یوآن ہے، 2021 کے آخر تک چین کو روس کی تمام ادائیگیوں میں یوآن کا استعمال تقریباً ایک تہائی تک پہنچ گیا تھا، اس کے برعکس بھارت کو روسی ادائیگیوں کا 70 فیصد ڈالر میں کیا گیا۔
بھارت اور روس اپنی مقامی کرنسیوں میں تجارت پر اتفاق کر چکے ہیں لیکن روسی درآمد کنندگان بھارتی روپے کی عالمی منڈی میں کم قبولیت کے باعث استعمال کرنے سے گریزاں ہیں۔
اسی طرح پاکستان روس کے ساتھ روپے میں تجارت نہیں کر سکے گا لیکن چین کو دی جانے والی برآمدات کے نتیجے میں ملنے والے یوآن سے پاکستان کو روسی تیل خریدنے میں مدد مل سکتی ہے۔
ایک سینئر بینکر نے کہا ’یوآن میں لین دین سے پاکستان کو چینی بینکوں تک بہتر انداز میں رسائی حاصل کرنے میں بھی مدد ملے گی اور پاکستان کے لیے ان سے تجارتی قرضے لینا آسان ہو گا‘۔