خیبرپختون خوا کے پسماندہ علاقوں میں تمباکو کاشت کرنے والے کسانوں نے خبردار کیا ہے کہ سگریٹ پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کی شرح میں غیر معمولی اضافہ تمباکو کے کاشتکاروں کے معاشی امکانات کو کم کرنے کا باعث بنے گا، کسانوں میں بے روزگاری اور غربت بڑھے گی اور ان کی زندگی کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوگا۔
اس بات کا بھی خدشہ ہے کہ تمباکو کے کاشتکار مجبورا ملک دشمن عناصر کے آلہ کار بن کر ملک کی سالمیت کے لیے خطرہ نہ بن جائیں۔
اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے خیبرپختون خوا سے تعلق رکھنے والے تمباکو کے کاشتکاروں نے سگریٹ پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی بڑھنے سے تمباکو کے کاشتکاروں پر پڑنے والے سماجی اور معاشی اثرات کی نشاندہی کی۔ پریس کانفرنس میں تمباکو کی کاشت والے علاقے مردان اور سوابی ڈسٹرکٹ کے کاشتکار شامل تھے۔
قانونی صنعت کی مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے کاشتکاروں نے کہا کہ قانونی صنعت کی مشکلات اور غیرقانونی تجارت کو فروغ دینے والے عوامل تمباکو کے کاشتکاروں کی زندگیوں کو بھی متاثر کررہے ہیں۔
تمباکو کاشتت کرنے والے کسانوں کا کہنا تھا کہ وسائل سے محروم پسماندہ علاقوں کے لیے تمباکو ایک نقد اور اہم فصل ہے اور اس فصل کو کسی قسم کا خطرہ تمباکو کے کاشتکاروں کی بقاء کا مسئلہ ہےجس کے سنگین سماجی و معاشی اثرات مرتب ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ تمباکو کی فروخت کا بڑا حصہ قانونی صنعت سے غیرقانونی صنعت کی جانب منتقل ہونے سے کسانوں کے لیے معاشی امکانات بھی کم ہوں گے اور ادائیگیوں میں تاخیر سے کسانوں کو سرمائے کی قلت اور بے روزگاری کا سامنا کرنا پڑے گا۔
پاکستان میں صرف دو کمپنیاں جن کا مارکیٹ شیئر 60فیصد ہے سگریٹ سے وصول ہونے والے مجموعی محصولات کا 98 فیصڈ ادا کرتی ہیں جبکہ غیرقانونی طور پر فروخت کی جانے والی باقی پوری صنعت مل کر 2فیصد ٹیکس قومی خزانے میں جمع کراتی ہے حالانکہ اس غیرقانونی صنعت کا مارکیٹ شیئر 40فیصد کے قریب ہے۔ 90فیصد سگریٹ کمپنیوں کی جانب سے ٹیکس کی عدم ادائیگی قومی خزانے کے لیے بھاری نقصان کا سبب بن رہی ہے۔
یہ بات اہمیت کی حامل ہے کہ حکومت نے 2021-22کے مالی سال میں ان دو کمپینیوں سے 153ارب روپے کا ٹیکس وصول کیا اور رواں سال کا ہدف 200ارب روپے مقرر کیا گیا جسے بڑھا کر اب 315ارب روپے کردیا گیا اس طرح سگریٹ کی دو کمپنیوں پر مشتمل قانونی صنعت پر محصولات کے بوجھ میں 150فیصد اضافہ کردیا گیا۔
کسانوں کا کہنا تھا کہ تمباکو کی کاشت والے زیادہ تر علاقے پسماندہ اور غربت کا شکار ہیں۔ سگریٹ کی قانونی صنعت تمباکو کے کاشتکاروں کو بہتر اور بروقت معاوضہ ادا کرتی ہے اگر ٹیکس اقدامات کی وجہ سے قانونی صنعت کا وجود خطرے میں پڑتا ہے تو اس صنعت سے وابستہ ہزاروں کسان گھرانوں کی بقاء بھی خطرے میں پڑجائیگی۔
کسانوں نے اس بات کا بھی خدشہ ظاہر کیا کہ روزگار خطرے میں پڑنے کی صورت میں وہ اپنی بقاء کے لیے ملک دشمن عناصر کے آلہ کار نہ بن جائے جس سے ملک کی سالمیت کو لاحق خدشات میں اضافہ ہوگا۔
پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کسانوں کے نمائندے مشفق خان نے کہا کہ سگریٹ کی قانونی اور منظم صنعت پاکستان میں تمباکو کی کاشت کا معیار بہتر بنانے میں بھی اہم کردار ادا کررہی ہے۔
ملٹی نیشنل کمپنیوں نے تمباکو کے کاشتکاروں کو ضروری آلات، مشینری مہیا کی ہے تاکہ تمباکو کی کاشت کو جدید بنایا جاسکے اسی طرح توانائی کی بچت اور ماحول پر پڑنے والے منفی اثرات کو کم کرنے کے لیے خصوصی بھٹیاں متعارف کرانے کے ساتھ کاشتکاروں کو رہنمائی بھی فراہم کی جارہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ قانونی سگریٹ پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کی وجہ سے غیرقانونی صنعت کو فروغ مل رہا ہے اس لیے ضروری ہے کہ غیرقانونی سگریٹ برانڈز بنانے اور فروخت کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے اور انہیں ٹیکس کے دائرے میں لایا جائے۔ اس اقدام سے حکومت کے لیے ٹیکس اہداف پورے کرنا آسان ہوگا ساتھ ہی سگریٹ کی منظم صنعت کو یکساں کاروباری مواقع مہیا ہوں گے۔
سگریٹ کے غیرقانونی کاروبار کو دستاویزی شکل ملنے سے تمباکو کے کاشتکاروں کا استحصال ختم ہوگا اور ان کا معیار زندگی بہتر بنانے میں مدد ملیگی۔