موجودہ معاشی حالات میں غیرقانونی تجارت سے معیشت کو پہنچنے والے نقصان کی روک تھام اشد ضروری ہوچکی ہے۔ حکومت ٹیکس ادا کرنے والی منظم صنعت کو سازگار ماحول فراہم کرکے معاشی بحران سے نکالنے کی کوششوں کو نتیجہ خیز بناسکتی ہے۔ ان خیالات کا اظہار پی ایم آئی کے ڈائریکٹر فنانس محمد ذیشان نے اپنے ایک جاری بیان میں کیا
انہوں نے کہا کہ ہم سب آگاہ ہیں کہ پاکستان معاشی لحاظ سے مشکل ترین دور سے گزررہا ہے اور پی ایم آئی( پاکستان) ان چیلنجنگ حالات میں اپنی گہری وابستگی اور پختہ عزم کے ساتھ پاکستان کے عوام کے ساتھ کھڑی ہے۔
ہم اپنی سرمایہ کاری سے پاکستان میں ملازمت کے مواقع فراہم کرنے کے ساتھ حکومتی خزانے میں محصولات کی شکل میں نمایاں حصہ ڈالتے ہوئے پاکستان کی مضبوطی کے لیے اپنا کردار ادا کررہے ہیں۔
پاکستان کو درپیش دہرے خسارے پر قابو پانے کے لیے ایک جانب حکومت نے درآمدات پر روک لگائی ہے جس کا مقصد زرمبادلہ کے ذخائر پر دباؤ کم کرنا ہے دوسری جانب بجٹ خسارہ کم کرنے کے لیے ٹیکسوں کی شرح میں اضافہ کیا گیا اور ضمنی بجٹ کے ذریعے مختلف مصنوعات پر اضافی ٹیکس عائد کیے گئے، سگریٹ پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی میں نمایاں اضافہ بھی ان اقدامات کا حصہ ہیں۔
سگریٹ کا شمار ان شعبوں میں کیا جاتا ہے جن پر ٹیکسوں کی شرح پہلے ہی بہت زیادہ ہے اور فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی میں حالیہ اضافہ نے اس فرق کو مزید بڑھا دیا ہے۔ ڈیٹا سے ثابت ہوتا ہے کہ پاکستان میں جب بھی قانونی سگریٹ پر ٹیکس میں اضافہ کیا گیا، ملک میں سگریٹ کی غیرقانونی فروخت میں اضافہ ہوتا گیا۔
رواں مالی سال تین مرتبہ ایکسائز ڈیوٹی میں اضافہ کیا گیا۔ جون اور اگست میں ملاکر 25 فیصد جبکہ فروری میں 150 فیصد اضافہ کیا گیا۔ اس اضافہ سے سگریٹ پر ایکسائز 200 فیصد تک بڑھ گیا ہے۔
ایکسائز ڈیوٹی میں اس نمایاں اضافہ کے اثرات سگریٹ کی قانونی صنعت پر مرتب ہونا شروع ہوچکے ہیں اور خود حکومت کو بھی اس اقدام کے منفی اثرات کا سگریٹ سے حاصل ہونے والی ٹیکسوں میں کمی کی شکل میں سامنا کرنا پڑے گا۔
محمد ذیشان نے کہا کہ پہلی سہ ماہی کے اعدادوشمار سے ثابت ہوتا ہے کہ سگریٹ کی قانونی فروخت میں 50 فیصد تک کمی واقع ہوئی ہے جبکہ ماضی کی طرح اس مرتبہ بھی ایکسائز ڈیوٹی میں اضافہ کا فائدہ غیرقانونی سگریٹ کو پہنچ رہا ہے۔
محمد ذیشان نے کہا کہ ملک میں غیر قانونی سگریٹ کا مارکیٹ شیئر کو حالیہ ایکسائز اضافہ سے قبل 35 سے 38 فیصد تھا صرف ایک مہینے میں 45 فیصد تک آچکا ہے اور اگر حکومت نے موزوں اقدامات نہ کیے تو یہ شیئر 50 فیصد تک پہنچ سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ قانونی صنعت نے کبھی ٹیکسوں یا ایکسائز کی مخالفت نہیں کی لیکن اس قدر زیادہ اضافہ کسی طور قانونی صنعت اور خود حکومت کے بھی مفاد میں نہیں ہوگا۔
محمد ذیشان نے کہا کہ جس تیزی سے سگریٹ کی غیرقانونی فروخت میں حالیہ ایکسائز ڈیوٹی بڑھنے کے بعد اضافہ ہوا اسے دیکھتے ہوئے اندازہ ہے کہ حکومت اس اقدام کے بعد سگریٹ کی فروخت سے 260 ارب روپے کے محصولات حاصل کرنے میں ناکام رہیگی اور بمشکل 170 ارب روپے ہی جمع ہوسکیں گے اور اس حقیقت کا انداز حکومت کو مارچ میں جمع ہونے والے ٹیکسوں سے بآسانی ہوجائے گا۔
غیرقانونی سگریٹ کی فروخت کے لحاظ سے پاکستان ملائیشیا کے بعد ایشیاء کا دوسرا بڑا ملک بن چکا ہے ملائیشیا میں غیرقانونی سگریٹ کا مارکیٹ شیئر 50فیصد جبکہ پاکستان میں 40فیصد ہے تاہم ایف ای ڈی کی شرح میں حالیہ اضافہ کے بعد خدشہ ہے کہ پاکستان ایشیاء کا سرفہرست ملک بن جائے گا۔
محمد ذیشان نے کہا کہ سگریٹ کی غیرقانونی تجارت کو روکے بغیر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کی شرح میں نمایاں اضافہ کبھی بھی نتیجہ خیز نہیں ہوسکتا کیونکہ ٹیکسوں کا تمام تر بوجھ سگریٹ کی منظم اور قانونی صنعت کو اٹھانا پڑرہا ہے جس کا سگریٹ سے حاصل ہونے والے مجموعی محصولات میں حصہ پہلے ہی 98فیصد کے لگ بھگ ہے۔
انہوں نے کہا کہ پالیسی سازوں کو اس حقیقت کو بھی سامنے رکھنا چاہیے کہ مہنگائی اور قوت خرید میں کمی کی وجہ سے مارکیٹ میں غیرقانونی طور پر فروخت کی جانے والی اشیاء کی طلب میں اضافہ ہورہا ہے جو ٹیکس چوری کی وجہ سے قانونی طور پر فروخت کی جانیو الی مصنوعات کے مقابلے میں سستی ہونے کی وجہ سے عوام کی سکت میں آسکتی ہیں۔
ٹیکسوں کی بلند شرح اور حالیہ ایف ای ڈی اضافہ نے قانونی سگریٹ کی قیمت میں لگ بھگ دگنا اضافہ کردیا ہے جس کی وجہ سے صارفین تیزی سے غیرقانونی سگریٹ کی طرف مائل ہورہے ہیں۔
محمد ذیشان نے کہا کہ اگر غیرقانونی طور سگریٹ کو قانون کے دائرے میں لایا جائے تو حکومت ریونیو خسارہ کو زیادہ آسانی سے پورا کرسکتی ہے۔ اس مقصد کے لیے سگریٹ کو ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم کی ڈیجیٹل نگرانی میں لایا گیا لیکن ملک میں پچاس کے لگ بھگ کمپنیوں میں سے صرف تین کمپنیوں نے یہ نظام لاگو کیا ۔
انہوں نے حکومت پر زور دیا کہ پوری صنعت پر قوانین کا یکساں اطلاق کیا جائے، ٹریک اینڈ ٹریس کو تمام کمپنیوں پر لاگو کیا جائے اور ایسا کاروباری ماحول مہیاکیا جائے جس سے ٹیکس ادا کرنے والی منظم صنعت پروان چڑھ سکے۔