آل پاکستان مرکزی یونین پان سگریٹ مشروب ریٹیلرز نے وفاقی حکومت کی جانب سے سگریٹ پر فیڈل ایکسائز ڈیوٹی کی شرح میں غیر معمولی اضافہ کو سگریٹ پان ریٹیلرز کی بقاء کے لیے خطرہ قرار دیتے ہوئے وزیر اعظم شہباز شریف سے معاملے کا نوٹس لینے اور قانونی سگریٹ مہنگے ہونے سے ریٹیلرز پر پڑنے والے سنگین اثرات کا حل نکالنے کا مطالبہ کردیا ہے۔
آل پاکستان مرکزی یونین پان سگریٹ مشروب ریٹیلرز کی جانب سے وزیر اعظم شہباز شریف کو ارسال کردہ ہنگامی خط میں قانونی سگریٹ پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کی شرح میں غیر معمولی اضافہ سے پان سگریٹ ریٹیلرز پر پڑنے والے منفی اثرات سے آگاہ کیا گیا ہے۔
یونین کے صدر حاجی محمد مبین یوسف بٹ نے خط کے ذریعے وزیر اعظم شہباز شریف کو ایف ای ڈی کی وجہ سے قانونی سگریٹ مہنگے ہونے کے خوردہ فروشوں کی مشکلات سے آگاہ کیا ہے۔
خط میں کہا گیا ہے کہ 15فروری کو منی بجٹ کے ذریعے سگریٹ انڈسٹری پر 60ارب روپے کے ٹیکس لگائے گئے اور سگریٹ پر ٹیکس کی شرح 200فیصد سے بڑھ کر 400 فیصد کردی گئی۔ اس اقدام سے سگریٹ کی قیمت میں دگنا اضافہ ہوگیا تاہم صارفین نے اس اضافے کو قبول نہیں کیا۔
انہوں نے کہا کہ سگریٹ نوشی میں کمی نہیں آئی بلکہ مہنگائی اور قوت خرید میں کمی کی وجہ سے صارفین سستے غیرقانونی سگریٹ کی جانب تیزی سے راغب ہورہے ہیں۔
حاجی محمد مبین یوسف بٹ نے کہا کہ ٹیکس میں اضافہ کے بعد بڑی برانڈز کی سیل کم ہورہی ہے جس کے نتیجہ میں ایف بی آر کے سگریٹ سے ٹیکس وصولی کے اہداف بھی پورے ہونا ناممکن ہوچکا ہے۔
خط میں کہا گیا ہے کہ ملک بھر میں پان سگریٹ فروخت کرنے والے 7 لاکھ سے زائد ریٹیلرز سگریٹ پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی میں غیر معمولی اضافہ سے بحرانی کیفیت سے دوچار ہوگئے ہیں جس سے پچاس لاکھ افراد کی گزربسر اور زندگیاں متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔
خط کے مطابق فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی بڑھنے سے قانونی سگریٹ کی قیمت لگ بھگ دگنی ہوگئی ہے جس کے نتیجہ میں صارفین سستے سگریٹ کی جانب منتقل ہورہے ہیں جو زیادہ تر ٹیکس ادا نہ کرنے کی وجہ سے غیر قانونی ہیں۔ ریٹیلرز اپنی آمدن برقرار رکھنے کے لیے غیر قانونی سگریٹ فروخت کریں تو اس سے ریٹیلرز قانون شکنی کے مرتکب ہوتے ہیں۔
آل پاکستان مرکزی یونین پان سگریٹ مشروب ریٹیلرز نے وزیر اعظم شہباز شریف سے اپیل کی ہے کہ اس صورتحال کا فوری نوٹس لیتے ہوئے اسٹیک ہولڈرز کا اجلاس بلایا جائے تاکہ شدید مہنگائی کے اس دور میں 7 لاکھ ریٹیلرز کے گھروں کے چولہے ٹھنڈے ہونے سے اور ان کے خاندانوں کو ممکنہ فاقہ کشی سے بچایا جاسکے۔