ادارہ شماریات (پی بی ایس) کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق 27 اپریل کو ختم ہونے والے ہفتے میں قیمتوں کے حساس اشاریہ میں سالانہ بنیادوں پر مہنگائی کی شرح 46.82 فیصد تک بڑھ گئی۔
رپورٹ کے مطابق ہفتہ وار بنیادوں پر قیمتوں کے حساس اشاریہ میں 0.15 فیصد اضافہ ہوا جس میں کھانے پینے کی اشیا بالخصوص آٹا، پھل، ٹماٹر، آلو، پیاز، گوشت اور کوکنگ آئل مہنگا ہو گیا ہے۔
بڑھتی ہوئی قیمتیں سب سے زیادہ تنخواہ دار طبقے کو متاثر کر رہی ہیں کیونکہ مہنگائی میں اضافے کے پیش نظر دیگر طبقات اپنی سروس اور لیبر چارجز کے ساتھ ساتھ اپنی تیار کردہ مصنوعات کی قیمتوں میں بھی اضافہ کر دیتے ہیں جبکہ مقررہ تنخواہ وصول کرنے والا طبقہ، بالخصوص نچلے طبقے کے لوگ مہنگائی میں اضافے سے سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔
گزشتہ ہفتے 20 اپریل کو قیمتوں کے حساس اشاریہ میں سالانہ بنیادوں پر 47.23 فیصد، 22 مارچ کو 46.65 فیصد، یکم ستمبر 2022 کو 45.5 فیصد تک اضافہ دیکھا گیا، یہ گزشتہ سال 18 اگست کو 42.31 فیصد تک پہنچنے کے بعد اب پہلی بار 40 فیصد سے اوپر گیا ہے۔
مہنگائی پر قابو پانے کے لیے حکومت نے اب تک جو واحد حکت عملی استعمال کی ہے وہ شرح سود میں مسلسل اضافہ ہے جسے اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے مانیٹری پالیسی کے آخری جائزے میں ریکارڈ 21 فیصد تک بڑھا دیا ہ۔
ایس پی آئی کے تحت 51 ضروری اشیا کی قیمتیں ملک کے 17 شہروں کی 50 مارکیٹوں سے حاصل کی جاتی ہیں، تازہ اعدادوشمار کے مطابق اِن 51 اشیا میں سے 21 اشیا کی قیمتوں میں اضافہ جبکہ 7 اشیا کی قیمتوں میں کمی ہوئی، تاہم 23 اشیا کی قیمتوں میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔
زیر جائزہ ہفتے کے دوران جن اشیا کی قیمتوں میں سالانہ بنیادوں پر سب سے زیادہ اضافہ ہوا ان میں گندم کا آٹا (175.06 فیصد)، سگریٹ (146.44 فیصد)، آلو (114.45 فیصد)، گیس چارجز (108.38 فیصد)، لپٹن چائے (104.28 فیصد)، ڈیزل (102.84 فیصد)، انڈے (91.98 فیصد)، پیٹرول (87.81 فیصد)، باسمتی چاول (87.71 فیصد)، کیلے (86.33 فیصد)، چاول ایری-6/9 (83.39 فیصد)، دال مونگ (67.60 فیصد)، روٹی (61.02 فیصد)، دال ماش (58.10 فیصد) اور صابن (49.93 فیصد) شامل ہیں۔
ہفتہ وار بنیادوں پر سب سے بڑی تبدیلی آلو (8.22 فیصد)، چکن (1.75 فیصد)، گندم کا آٹا (1.55 فیصد)، گڑ (1.23 فیصد)، روٹی (1.13 فیصد) اور چاول ایری 6/9 (1.01 فیصد) کی قیمتوں میں دیکھی گئی۔
جن مصنوعات کی قیمتوں میں گزشتہ ہفتے کے مقابلے میں سب سے زیادہ کمی دیکھی گئی ان میں ٹماٹر (19.20 فیصد)، کیلے (5.39 فیصد)، پیاز (1.40 فیصد)، چینی (1.19 فیصد)، ایل پی جی (1.09 فیصد)، دال مسور (0.98 فیصد) اور سرسوں کا تیل (0.39 فیصد) شامل ہیں۔
حکومت مالیاتی خسارہ پورا کرنے کے لیے آمدنی پیدا کرنے کے لیے عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) پروگرام کے تحت ایندھن اور بجلی کے نرخوں میں اضافے، سبسڈیز کے خاتمے، مارکیٹ کی بنیاد پر ایکسچینج ریٹ اور زیادہ ٹیکس عائد کرنے جیسے سخت اقدامات کر رہی ہے، جس کے نتیجے میں معاشی ترقی کی رفتار سست اور آنے والے مہینوں میں مہنگائی میں مزید اضافے کا خدشہ ہے۔