اربوں روپے کی لاگت سے سیف سٹی منصوبہ، جگہ جگہ ناکے، چیکنگ کے باوجود شہر اقتدار میں جرائم پیشہ عناصر کا راج، پولیس مکمل طور پر ناکام

وفاقی دارالحکومت میں ارپوں روپے کی لاگت سےسیف سٹی منصوبہ کے تحت نصب اٹھارہ سو سے زائد کیمروں، پانچ مختلف شعبوں کی پولیس پٹرولنگ ، جگہ جگہ پولیس ناکوں کے باوجود،گاڑی چوری،موٹر سائیکل چوری ،مسلح ڈاکوں اور سٹریٹ کرائم کی وارداتوں میں خطرناک حد تک اضافہ ہوگیاہے جسے ضلع بھر کے ایک تھانہ ویمن کے علاوہ مجموعی طورپرچوبیس تھانوں کی پولیس روکنے میں مسلسل ناکام ہورہی ہے اورنئے سال 2023میں اب تک گاڑی چوری ،موٹرسائیکل چوری، گھروں میں چوری ،مسلح ڈکیتی،نقب زنی،رات کے وقت چوریوں، دن کے وقت چوریوں اورسٹریٹ کرائم کی تین سودس وارداتیں ہوئی ہیں۔ پولیس ذرائع کے مطابق اسلام آباد میں یومیہ پانچ سے دس صرف سٹریٹ کرائم کی وارداتیں ہورہی ہیں جن میں سے بیشتر کے متعلقہ تھانے مقدمات تک درج نہیں کرتے اورکمزورمدعیوں کومحض روزنامچہ میں رپٹ درج کرکے متعلقہ تھانے ٹرخادیتے ہیں اوریہ شرح اسلام آباد کی تاریخ میں سب سے زیادہ شرح سامنے آئی ہے۔اسوقت آپریشنل پولیس کی پٹرولنگ،ریسکیو ون فائیو، ایگل سکوارڈ ،سیف سٹی کی کیمرے نصب والی کاروں اورسی آئی اے پولیس کی ناکہ بندیوں ،پٹرولنگ کے باوجود سٹریٹ کرائم کے نامعلوم منظم نیٹ ورک کو پولیس توڑنے میں ناکام ہورہی ہے جس کا واضح ثبوت پولیس کی جانب سے سٹریٹ کرائم کی وارداتوں میں ملزمان کی گرفتاریوں کے روزانہ کی بنیادپر دعووں کے باوجود ایک تسلسل کے ساتھ گاڑی چوری ، موٹرسائیکل چوری ، گھروں میں چوریوں ، نقب زنی،مسلح ڈکیتیوں کاسلسلہ تھم نہیں پارہاجس سے سامنے آتا ہے کہ پولیس ان سنگین جرائم میں ملوث نامعلوم منظم نیٹ ورک کوتوڑنے اورقانون کی گرفت میں لانے میں بھی حقیقی معنوں میں ناکامی سے دوچارہے دوسری جانب ان پانچ شعبوں کی پولیس کے ساتھ ساتھ ضلع بھر میں سیکیورٹی چیکنگ کے نام پرپولیس ناکے بھی قائم کئے جاچکی ہیں دوسری جانب سیف سٹی کے تحت ایگل سکوارڈ ضلع بھر میں جگہ جگہ موٹرسائیکلوں ، گاڑیوں میں سوار افراد ، انکی گاڑیوں اور راہ جاتے لوگوں کی روزانہ کی بنیاد پر سرچنگ کے نام پرتلاشیاں لینے میں مصروف ہیں اور اس مقصد کے لئے روزانہ کی بنیادپر پولیس ترجمان کی جانب سے پولیس کارکردگی بھی جاری کی جاتی ہے لیکن جب سے یہ سلسلہ شروع کیاگیا ہے کسی بھی ایک کارچور یا سٹریٹ کرائم میں ملوث ملزم کو پولیس بروقت اور رنگے ہاتھوں گرفتار نہیں کرپائی۔ ذرائع نے مذید بتایاکہ کسی زون یا سب ڈویژنل سطح کا آفیسر خود موقع پرجاکر اپنے اپنے علاقہ میں پولیس پترولنگ کی مانیٹرنگ نہیں کرتا بلکہ اپنے ڈرائیورز اور آپریٹرز کے زمہ یہ کام لگا کر خود بری الذمہ ہوئے رہتے ہیں ۔ خود چیک کرنے کی بجائے اپنے آپریٹررز سے رپورٹ لینے پر اکتفا کربیٹھے ہیں۔ذرائع کا مذید کہنا تھاکہ گوکہ نئے آئی جی نے چارج سنھبالنے کے بعد بتدریج آپریشنل پولیس کے زونل افسران پر پراپرٹی کیخلاف جرائم میں انسداد اور لوگوں کے ہونیوالے نقصان کی برآمدگیاں بڑھاکرکارکردگی بہتر بنانے کی خاطر دباو بڑھایا اور باقاعدگی سے ماہانہ انسداد کرائم کی میتںگز کی بھی ہدایات جاری کیں ۔ پولیس کی فلاح و بہبود کے مختلف منصوبے بھی اسی وجہ سے شروع کرائے تاکہ ماتحت پولیس افسران و اہلکار کارکردگی دکھائیں مگر وہ مسلسل پراپرٹی کیخلاف کرائم بالخصوص سٹریٹ کرائم کو کنٹرول نہیں کرپارہے۔ذرائع نے یہ بھی بتایاکہ سب سے زیادہ سٹی زون میں یہ وارداتیں ہورہی ہیں جس پر حیران کن امر یہ ہے کہ اعلی حکام زمہ داروں کیخلاف کوئی محکمانہ ایکشن بھی نہیں لے رہے جو ایک جانب اس امر کی حوصلہ افزائی کا بھی موجب بن رہا ہے کہ جب مرضی علاقہ میں جتنامرضی سنگین کرائم ہوجائے محکمانہ طور پر کوئی پکڑ نہیں ہونی تو یہ بھی عنصر ہے جس کی وجہ سے سٹریٹ کرائم اور خاص طور پر ملازمت پیشہ یا ویسے راہ جاتی خواتین کیخلاف جرائم میں بھی سنگین حد تک اضافہ سامنے آرہا ہے۔ذرائع نے بتایاکہ دوسرے نمبر پر صدر زون جبکہ تیسرے نمبر پررورل زون ان جرائم میں سب سے آگےہیں۔اس ضمن میں وفاقی پولیس کے ایک سینئیر آفیسر نے گفتگو میں مذکورہ بالا وارداتوں کی تصدیق کرتے ہوئے کہاکہ بلاشبہ تمام وارداتوں کے اب بھی متعلقہ تھانوں کی جانب سے بروقت مقدمات درج نہ کئے جانے کی شکایات عام ہیں لیکن بہرحال موجودہ دورمیں ایف آئی آر کے فوری اندراج کی صورتحال سابقہ حکومت کے دور سے کئی گنا بہتر ہوئی ہے جس میں مذید بہتری لائی جائے گی تاکہ صحیح معنوں میں جرائم کے انسداد کی مربوط اور موثر و فعال حکمت عملی بناکرسٹریٹ کرائم میں کمی لائی جاسکے ۔ ایک سوال پر انکا کہنا تھاکہ بالکل ماتحت افسران کی تعیناتیوں میں اقربا پروری ، پسند ناپسند کا بھی کسی حد تک عنصر ہوسکتا ہے مگر پیشہ وارانہ مہارت اور کارکردگی کو بہرحال پھر بھی ملحوظ خاطر رکھ کر ہی پوسٹنگز ٹرانسفرز کی جاتی ہیں۔