و فاقی دارلحکومت کے تھانہ لوہی بھیر پولیس کے خلاف مقدمہ۔ ایس ایچ او نے اپنے ایس پی، ڈی آئی جی کو بھی ماموں بنا ڈالا۔ ہائیکورٹ نے ڈی آئی جی،چیف کمشنر اور ڈی جی ایڈمن اسلام آباد کو ذاتی حیثیت میں طلب کرلیا۔ چھاپے کی نگرانی کرنے والا مجسٹریٹ سچ کے ساتھ کھڑا ہوگیا۔ مساج سینٹر پر چھاپے کے دوران ایس ایچ او موجود تھا۔ ہائی کورٹ نے رپورٹ غلط ہونے کی صورت میں ڈی آئی جی آپریشن اور ڈی جی ایڈمن کے خلاف کارروائی کا عندیہ دے ڈالا۔ شاہ فیصل نامی شخص نے مارچ میں تھانہ لوہی بھیر کے ایس ایچ او اختر زمان کو اس کے خلاف مقدمہ درج کرنے کی درخواست دی تھی۔ درخواست میں موقف تھا کہ علاقہ مجسٹریٹ امجد جعفری، سب انسپکٹر اختر زمان، ایس ایچ او تھانہ لوہی بھیر، اے ایس آئی نصیب اللہ اور دو جعلی صحافیوں نے سوک سنٹربحریہ ٹاؤن میں رات کے وقت غیرقانونی ریڈ کیا۔Go calm salonنامی مساج سنٹر میں انتیس نومبر2022ء کی رات دس بجے پلازہ نمبر153/C میں دھاوا بول دیا۔ سٹاف کو یرغمال بنا کر76 ہزار کی نقدی، سی سی ٹی وی کیمرے اور دیگر سامان لوٹ لیا۔ سٹاف کو غواء کر کے گاڑیوں میں بٹھایا اور بحریہ ٹاؤن میں کسی نامعلوم مقام پر لے گئے۔ وقوعہ کا علم ہونے پر درخواست گزار تھانے گیا لیکن تھانے میں موجود پولیس اہلکاروں نے ایسے کسی بھی وقوعے یا سٹاف کی گرفتاری سے لاعلمی ظاہر کردی لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ سپیشل مجسٹریٹ ایس ایچ او اختر زمان، اے ایس آئی نصیب اللہ اور ایک لیڈی کانسٹیبل نے ان پر ایک جھوٹا اور بے بنیاد مقدمہ درج کرلیا ہے۔ پولیس تھانہ لوہی بھیر نے درخواست گزار کی درخواست پر کوئی عملدرآمد نہ کیا جس پر اس نے مجاز عدالت سے رجوع کیا۔ عدالت کے حکم پر مارچ میں پولیس نے بددیانتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے صرف انکوائری میں لکھا کہ انکوائری کے دوران سپیشل مجسٹریٹ امجد، ایس ایچ او اختر زمان، اے ایس آئی نصیب اللہ، لیڈی کانسٹیبل طاہرہ کی موقع پر موجودگی نہیں پائی گئی ہے۔ ایک میڈیا پرسن کامران، ڈرائیور کانسٹیبل طارق اور ایک دوسرے کانسٹیبل طارق کی موجودگی وقوعہ کے دوران پائی گئی ہے۔ اس طرح 14 مارچ کو سب انسپکٹر محمد رئیس جو کہ تفتیشی آفیسر تھا، نے ایک بوگس رپورٹ کی بنیاد پر مقدمہ نمبر22/23درج کیا جس میں صرف دو کانسٹیبلز کو قربانی کا بکرا بنایا گیا۔ تاہم درخواست گزار نے پولیس کی اس غنڈاگردی کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کرلیا جس پر جمعہ کے روز جسٹس طارق محمود جہانگیری نے سماعت کی۔جسٹس طارق محمود جہانگیری نے ڈی آئی جی آپریشن شہزاد بخاری اور ڈی جی ایڈمن چیف کمشنر سے رپورٹ طلب کر رکھی تھی۔ ڈی آئی جی نے رپورٹ جمع کرادی تھی لیکن چیف کمشنر کی طرف سے رپورٹ جمع نہیں کرائی گئی تھی جس پر عدالت نے سخت ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اگر ڈی آئی جی کی جمع کرائی گئی رپورٹ غلط ہوئی تو اس کے ساتھ ضلعی انتظامیہ کے خلاف سخت توہین عدالت کی کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ ڈی آئی جی آپریشن نے اپنی رپورٹ میں چھاپے کو غیرقانونی قرار دیا ہے جبکہ ڈی جی ایڈمن سعید نے اختلاف کرتے ہوئے اس چھاپے کو قانونی قرار دیا ہے کیونکہ سپیشل مجسٹریٹ کی رپورٹ کے مطابق ایس ایچ او، لیڈی کانسٹیبل اور دیگر کو ساتھ رکھ کر چھاپہ مارا گیا تھا لیکن موقع پر کچھ فوٹیجز سے پولیس کی لوٹ مار ثابت ہو رہی ہے جسے جھٹلایا نہیں جاسکتا۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ اگر درخواست گزار غلط ثابت ہوا تو اس کے خلاف بھی کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔ یہاں مسئلہ یہ ہے کہ ڈی آئی جی آپریشن کواس سارے معاملے میں ماموں بنایا گیا ہے اور حقائق کے منافی رپورٹ دی گئی جس پر ڈی آئی جی نے بغیر تحقیق کئے یہ رپورٹ ہائی کورٹ میں جمع کرائی ہے۔ مجسٹریٹ کا بیان کہ ایس ایچ او موقع پر ساتھ تھا، کو جھٹلایا نہیں جاسکتا۔ تاہم ایس ایچ او اختر زمان موجودہ آئی جی ناصر خان (ڈاکٹر) کا چہیتا بتایا جاتا ہے۔ مبینہ کرپشن، بدعنوانی، جرائم کی شرح میں تشویشناک اضافے اور اختیارات کے غلط استعمال کی درجنوں شکایات پر اسے یہاں سے نہیں ہٹایا گیا اور وہ گزشتہ سات، آٹھ ماہ سے تھانہ لوہی بھیر میں موجود ہے۔ گزشتہ سال کے درمیان میں اسے میڈیا ٹاؤن، بحریہ ٹاؤن میں ڈکیتیوں کی وجہ سے معطل کیا گیا تھا لیکن صرف بیس دن بعد دوبارہ اسی تھانے کا ایس ایچ او لگا دیا گیا۔ اب معتبر ذرائع کے مطابق اسے حکم دیا گیا ہے کہ اگلی تاریخ سے پہلے ہر صورت درخواست گزار کو ”راضی“ کیا جائے۔ بصورت دیگرنتائج اچھے نہیں ہونگے۔
/ img src="https://capitalnewspoint.com/wp-content/uploads/2024/09/Sarhad-University-Expands-Its-Horizons-with-the-Launch-of-Islamabad-Campus-1.jpg">
/ img src="https://capitalnewspoint.com/wp-content/uploads/2024/09/Sarhad-University-Expands-Its-Horizons-with-the-Launch-of-Islamabad-Campus-1.jpg">