اسلام آباد . وفاقی محتسب برائے انسداد ہراسیت نے سرینہ ہوٹل کی گلو کارہ خاتون کی طرف سے دائر جنسی ہراسیت کی درخواست عدم ثبوت کی بناء پر جرمانہ کرتے ہوئے خارج کر دی.
عدالت نے لکھا کہ خاتون کا کنٹریکٹ ایڈمنسٹریٹو مسائل کی وجہ سے ختم ہوا نا کہ جنسی تعاون سے انکار پر ۔مزید یہ کہ خاتون ایسی ہی درخواستیں دائر کرنی کی عادی ہیں جو اپنے پہلے کام کرنے والی جگہوں پر بھی ایسا کر چکی ہیں جہاں ان پر ڈسپلنیری ایکشن شروع ہوتا ہے یہ ایسی درخواست دائر کر دیتی ہیں۔موجودہ کیس میں بھی یہ اپنے الزامات کا ثبوت فراہم نہیں کر سکیں.
اس لیے ان کا کیس خارج کیا جاتا ہے اور انہیں پانچ ہزار روپے جرمانہ بھی کیا جاتا ہے جو تین الزام کنندہ پر برابر تقسیم کیا جائے۔واضح رہے کہ نجی ہوٹل میں پارٹ ٹائمر گائیک خاتون نے ڈائریکٹر سرینہ ہوٹل مائیس علی فرمان،ریسٹورنٹ منیجر گل فراز،ڈائریکٹر ہیومن ریسورس سرینہ ہوٹل شازیہ شہباز،عباس ماتوک ڈائریکٹر فوڈ اینڈ بیوریجز کے خلاف کام کی جگہ پر جنسی ہراساں کرنے کی درخواست دائر کی تھی جس میں موقف اختیار کرتے ہوئے الزام لگایا تھا کہ علی فرمان انہیں نامناسب طریقے سے چھوتا ہے اور انکا راستہ روکتا ہے.
اور مجھے مجبور کیا جاتا ہے کہ میں سٹاف واش روم کی بجائے گیسٹ واش روم استعمال کروں بعد میں علی فرمان اور گل فراز نے میری غیر حاضری لگانا شروع کر دی جبکہ علی فرمان نے مجھے مانیٹری فوائد دینے کا بھی کہا بدلے میں مجھ سے جنسی تعاون مانگا جاتا تھا اور مجھے دفتر میں بلاکر دھمکیاں لگائی جاتی کہ اگر ان کی بات نا مانی تو مجھے نوکری سے نکلوا دیا جائے گا۔