اسلام آباد (کرائم رپورٹر)عالمی یومِ انسدادِ انسانی اسمگلنگ و ٹریفکنگ اِن پرسن کے موقع پر اسلام آباد میں ایک اعلیٰ سطحی تقریب منعقد ہوئی جس کا موضوع تھا: “انسانی اسمگلنگ ایک منظم جرم ہے – استحصال کا خاتمہ کریں”۔ اس تقریب میں وزارت داخلہ، ایف آئی اے اور مختلف بین الاقوامی تنظیموں کے اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔ شرکاء نے انسانی اسمگلنگ جیسے سنگین اور منظم بین الاقوامی جرم کے خاتمے کے لیے باہمی تعاون کو مزید مستحکم بنانے اور مؤثر اقدامات کو تیز کرنے کے عزم کا اعادہ کیا تقریب کا مقصد اس بات کو اجاگر کرنا تھا کہ انسانی اسمگلنگ محض انفرادی جرم نہیں بلکہ ایک پیچیدہ، سرحد پار منظم مجرمانہ نیٹ ورکس کا نتیجہ ہے جو انسانی کمزوریوں، مجبوریوں اور ہجرت کے غیر محفوظ راستوں سے فائدہ اٹھاتا ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق 2020 سے 2023 کے دوران دنیا بھر میں 200,000 سے زائد متاثرین کی نشاندہی کی گئی، جب کہ اصل تعداد کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔ اسمگلرز متاثرین کو جبری مشقت، جنسی استحصال اور دیگر جبری جرائم پر مجبور کرتے ہیں۔ جیسے جیسے یہ نیٹ ورکس مزید پیچیدہ ہو رہے ہیں، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور عدلیہ کو بھی اسی سطح پر جواب دینے کی ضرورت ہے۔
یہ تقریب ایف آئی اے کے اشتراک سے یو این او ڈی سی، آئی ایل او ، آئی او ایم، ایس ایس ڈی او ، آئی سی ایم پی ڈی اور انٹرنیشنل ریٹرنز اینڈ رِی انٹیگریشن اسسٹنس کی جانب سے منعقد کی گئی تقریب کے انعقاد میں کینیڈا، یورپی یونین، امریکی سفارت خانہ، برطانوی ہائی کمیشن، آسٹریلیا، ناروے اور دیگر بین الاقوامی شراکت داروں کی مالی معاونت شامل رہی یو این او ڈی سی انچارج برائے پاکستان سید ارسلان نے افتتاحی خطاب میں انسانی اسمگلنگ کو منظم جرم کے طور پر تسلیم کرنے کی ضرورت پر زور دیا اور حکومتِ پاکستان کے ساتھ تعاون جاری رکھنے کے عزم ظاہر کیا جوائنٹ سیکریٹری وزارت داخلہ عاصم ایوب نے اپنے خطاب میں کہا کہ انسانی اسمگلنگ کسی ایک سرحد تک محدود نہیں ۔ پاکستان بین الاقوامی تعاون کے لیے پرعزم ہے اور عالمی اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل کر اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے تیار ہے تقریب کے مہمانِ خصوصی، ڈی جی ایف آئی اے جناب رفعت مختار راجہ نے پاکستان کے نیشنل ایکشن پلان برائے انسداد انسانی اسمگلنگ اور ٹریفکنگ پر عمل درآمد میں مختلف قومی اداروں اور شراکت داروں کی کوششوں کو سراہا۔ ڈی جی ایف آئی اے نے کہا کہ انسدادِ انسانی اسمگلنگ کے لیے 2018 میں منظور کردہ قانون حکومت کے پختہ عزم کا مظہر ہے، جو متاثرین کے وقار کے تحفظ کو مقدم رکھتا ہے اور انہیں مجرم نہیں بلکہ مظلوم سمجھتا ہے۔
آئی او ایم کی مشن چیف، میو ساتو نے کہا کہ انسانی اسمگلنگ ایک عالمی مسئلہ ہے جو استحصال پر مبنی ہے۔ انہوں نے انسانی حقوق پر مبنی مکمل حکمت عملی، عدالتی تحفظ، آگاہی اور محفوظ ہجرت کے راستوں کی اہمیت پر زور دیا آئی ایل او پاکستان کے کنٹری ڈائریکٹر، گیر تھامس ٹونسٹول نے کہا کہ انسانی اسمگلنگ انسانی وقار اور بنیادی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ اس کا تدارک بہتر قانونی نفاذ، متاثرین کی مؤثر مدد اور باعزت روزگار کی فراہمی سے ہی ممکن ہے۔ پاکستان کی جانب سے ILO کے جبری مشقت پروٹوکول (P029) کی توثیق اس سمت میں اہم پیش رفت ہے آئی سی ایم پی ڈی کی پروجیکٹ مینیجر، سائرہ عباس نے کہا کہ کوئی ایک ادارہ یا ملک اکیلا یہ جنگ نہیں جیت سکتا۔ ہمیں منظم جرائم کے جدید طریقوں کے خلاف متحد ہو کر کام کرنا ہوگا ایس ڈی او کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر سید کوثر عباس نے متاثرین کی بحالی کے لیے اداروں کے درمیان موثر ربط اور مربوط حوالہ جاتی نظام کی اہمیت پر زور دیا۔
انٹرنیشنل ریٹرنز اینڈ ری انٹیگریشن اسسٹنس کے کنٹری ڈائریکٹر عماد اختر نے کہا کہ اسمگلنگ انسانوں سے ان کی شناخت چھین لیتی ہے، لیکن بحالی انہیں دوبارہ زندگی عطا کرتی ہے۔ ہر متاثرہ فرد کو صرف بازیابی نہیں بلکہ امید، مدد اور بحالی کا راستہ بھی چاہیے تقریب کے دوران ڈائریکٹر ایف آئی اے سرفراز ورک نے نیشنل ایکشن پلان پر پریزینٹیشن دی اور حاضرین کی جانب سے اٹھائے جانے والے سوالات کے جوابات دئیےتقریب میں پینل ڈسکشن میں قانون نافذ کرنے والے اداروں، عدلیہ اور بین الاقوامی تنظیموں کے ماہرین نے شرکت کی شرکاء نے پالیسی و عدالتی چیلنجز، سرحد پار تعاون، اور انسانی حقوق پر مبنی ایکشن کی ضرورت پر تبادلہ خیال کیا تقریب کے اختتام پر ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل (امیگریشن) ایف آئی اے، شکیل درانی نےاسٹیک ہولڈرز کے ساتھ تعاون پر روشنی ڈالی اور انسانی سمگلنگ کے خلاف مزید تعاون، استعداد کار بڑھانے اور آگاہی مہم بڑھانے پر زور دیا.