لندن — وسطی ایشیا میں کئی نسلوں سے گھوڑی کے دودھ کو صحت کے فوائد کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے، اور حالیہ تحقیق نے اس کے استعمال کا ایک نیا طریقہ پیش کیا ہے جو آپ کو حیران کر سکتا ہے۔
برطانوی اخبار کی رپورٹ کے مطابق، ماہرین نے تجویز کیا ہے کہ گھوڑی کے دودھ کو آئس کریم بنانے میں استعمال کیا جانا چاہیے۔ یہ آئس کریم نہ صرف آنتوں کی صحت کے لیے مفید ہے بلکہ مزیدار ذائقہ بھی پیش کرتی ہے۔
پولینڈ کے شہر سزیکن میں ویسٹ پومیرینین یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی کے سائنسدانوں نے گھوڑی کے دودھ کی مدد سے چار مختلف قسم کی آئس کریم تیار کی۔
پہلی آئس کریم میں دہی کے بیکٹیریا، دوسری میں دہی کے بیکٹیریا اور پروبائیوٹک انولن، تیسری میں لیکٹیکوباسیلس رمنوسس بیکٹیریا، اور چوتھی میں لیکٹی پلانٹی بیسیلس بیکٹیریا شامل کئے گئے۔
تحقیقی ٹیم نے پایا کہ گھوڑی کے خمیر شدہ دودھ میں پروبائیوٹکس موجود ہوتے ہیں جو آنتوں میں نقصان دہ بیکٹیریا کو چپکنے سے روکتے ہیں۔
محققین نے کہا کہ ہضم ہونے کے بعد ان پروٹینز میں اینٹی مائیکروبیل اور اینٹی انفلیمیٹری اثرات پیدا ہوتے ہیں۔
گھوڑی کے دودھ کو پہلے 65 ڈگری سینٹی گریڈ پر آدھے گھنٹے کے لیے پاسچورائز کیا گیا، جو گائے کے دودھ کے درجہ حرارت کے برابر تھا۔ اس کے بعد 60 آئس کریم کے نمونے تیار کئے گئے، جن کا ایک دن بعد تجربہ کیا گیا۔
تحقیقی ٹیم نے پایا کہ تمام نمونے اوور فلو ویلیو اور تحلیل کی شرح میں نمایاں طور پر مختلف نہیں تھے۔ ٹیسٹ کی گئی آئس کریموں کے درمیان پروٹین اور چکنائی کی سطح بھی یکساں تھی۔
اسی طرح، محققین نے کہا کہ تمام نمونوں کا رنگ کریمی سفید، قدرتی اور پرکشش تھا۔ ان کی ساخت کو دیکھتے ہوئے، یہ خوشگوار کریمی ذائقہ پیش کرتی تھیں۔
محققین نے مزید بتایا کہ صرف ایک نمونہ، خاص طور پر ایک نمونہ جس میں اینولین اور لیکٹوبا سیلس پلانٹیرم بیکٹیریا شامل تھے، دوسرے نمونوں کے مقابلے میں واضح طور پر زیادہ تیزابی ذائقہ رکھتا تھا۔
تحقیق میں کہا گیا کہ گھوڑی کا دودھ پروبائیوٹکس کے لیے ایک سازگار ماحول فراہم کرتا ہے، جو کہ اس کے اعلیٰ لیکٹوز مواد سے ہو سکتا ہے جو پروبائیوٹک بیکٹیریا کے لیے سبسٹریٹ ہے۔
محققین نے اعتراف کیا کہ گھوڑی کے دودھ کی آئس کریم پر موجودہ ادبیات بہت محدود ہے، لیکن گھوڑی کے دودھ کو دہی کی آئس کریم اور ہم آہنگ آئس کریم کے لیے ایک موزوں خام مال سمجھا جا سکتا ہے۔
گھوڑی کے دودھ پر کی جانے والی الگ الگ تحقیق نے طویل عرصے سے تجویز کیا ہے کہ اسے تپ دق، پیٹ کے السر، اور یہاں تک کہ دائمی ہیپاٹائٹس کے علاج کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
برطانیہ میں لوگوں کی ایک بڑھتی ہوئی تعداد گائے کے دودھ کی جگہ پودوں پر مبنی متبادل کا انتخاب کر رہی ہے۔
تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ ایسے بچے جو گائے کے دودھ سے شدید ردعمل کا شکار ہوتے ہیں، ان کے لیے گھوڑی کا دودھ ایک متبادل ہو سکتا ہے۔
حال ہی میں بچوں میں الرجی سے متعلق امراض میں اضافہ ہوا ہے۔ عالمی ادارہ صحت نے پیش گوئی کی ہے کہ 2025 تک دنیا کی نصف آبادی الرجی کا شکار ہو سکتی ہے۔