گزشتہ روز انتقال کرنے والے رکن قومی اسمبلی عامر لیاقت حسین کی نماز جنازہ اور تدفین کا معاملہ الجھ گیا ہے اور پولیس نے ورثا کو عامر لیاقت کی تدفین کے لیے عدالت سے رجوع کرنے کا مشورہ دیا ہے جس کے بعد ان کی سابقہ اہلیہ بشریٰ اقبال اور بچے میت کی وصولی کے لیے عدالت پہنچ گئے۔
عامر لیاقت کی وصیت کے مطابق ان کے کفن دفن کے انتظامات رمضان چھیپا کر رہے ہیں اور ان کی میت سرد خانے میں رکھی گئی ہے۔
عامر لیاقت کے صاحبزادے احمد آج بیرون ملک سے کراچی آگئے ہیں اور سابق رکن قومی اسمبلی کے نماز جنازہ کا اعلان بعد نماز جمعہ کیا گیا تھا جب کہ ان کی تدفین کے لیے عبد اللہ شاہ غازی مزار کے احاطے میں قبر بھی تیار کر لی گئی ہے۔
عامر لیاقت کی تدفین کے معاملے پر سامنے آنے والے تنازع کے باعث نماز جمعہ کے بعد ان کی تدفین کے امکانات نظر نہیں آرہے۔
پولیس کا مؤقف ہے کہ عامر لیاقت کا پوسٹ مارٹم کیا جائے جبکہ عامر لیاقت کے اہلخانہ پوسٹ مارٹم سے انکاری ہیں۔
پولیس نے عامر لیاقت کی میت کے حوالے سے تھانے میں روزنامچہ درج کیا ہے جس میں سرد خانے کو عامر لیاقت کی میت بریگیڈ تھانے کے عملے کے حوالےکرنے کا کہا گیا ہے۔
پولیس کا کہنا ہے کہ بریگیڈ تھانے کے عملے کے علاوہ عامر لیاقت کی میت کسی اور کے حوالے نہ کی جائے، اگر میت کسی اور کو دی گئی تو قانونی کارروائی کی جائے گی۔
ایس ایس پی ایسٹ عبدالرحیم شیرازی کا کہنا ہے کہ عامر لیاقت کے دونوں بچوں سے معاہدہ ہوا تھا جس کے مطابق بچوں نے تدفین کی ذمہ داری لی تھی، بچوں نے تدفین سے پہلے پوسٹ مارٹم پر بھی رضامندی ظاہر کی تھی تاہم اب بشریٰ اقبال اور بچوں نے پوسٹ مارٹم کرانے سے انکار کر دیا ہے۔
پولیس کے مطابق عامر لیاقت کے بچوں نے کسی اختلاف پر دانیہ کو راضی کرنے پر بھی آمادگی ظاہر کی تھی تاہم اب عامر لیاقت کی سابق اہلیہ اور بچوں کی والدہ نے معاہدہ ماننے سے انکار کر دیا ہے۔
ایس ایس پی ایسٹ کا کہنا ہے کہ عامر لیاقت کی میت ورثا کے حوالے نہیں کی جائے گی، ان کے ورثا کو قانونی طریقہ کار بتایا ہے، ورثا قانونی طریقے پر عمل کر کے ہی میت وصول کر سکتے ہیں، عامر لیاقت کے ورثا پوسٹ مارٹم کے بغیر تدفین کے لیے عدالت سے رجوع کریں۔