وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل نے کہا ہے کہ ملک کے انتظامی معاملات کو ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے ورنہ معیشت سنبھل نہیں سکے گی۔
اسلام آباد میں وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب اور وزیر مملکت برائے خزانہ و محصولات ڈاکٹر عائشہ غوث پاشا کے ہمراہ پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مفتاح اسمٰعیل نے کہا کہ ہم نے انتہائی مشکل وقت میں بجٹ پیش کیا ہے جب پاکستان ایک مشکل گھڑی میں کھڑا ہے۔
انہوں نے کہا کہ میں نے گزشتہ 30 برسوں میں اس سے زیادہ گھمبیر وقت کبھی نہیں دیکھا جہاں ایک جانب عالمی سطح پر چیلنجز کا سامنا ہے اور دوسری جانب حکومت یا انتظامیہ کی جانب سے مسائل کے حل کے لیے کچھ نہیں کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ رواں مالی سال میں حکومت نے بجلی کے محکمے کے لیے 1100 ارب روپے سے زائد کی سبسڈی دی ہے، ہم کنزیومرز کو 100 ارب یونٹ بنا کر پہنچاتے ہیں، اس کا مطلب ہے کہ ہم نے بجلی پر 11 روپے فی یونٹ سبسڈی دی ہے۔
انہوں نے کہا کہ گیس کے شعبے میں 400 ارب روپے کی سبسڈی رواں مالی سال میں دی گئی ہے، یہ 400 ارب روپے کا نقصان ایک جانب ہے جبکہ دوسری جانب گیس میں 1400 ارب روپے کا سرکولر ڈیٹ ہے، ایس این جی پی ایل نے گزشتہ 2 برسوں میں 200 ارب روپے کا نقصان کیا، 20 ڈالر کی گیس خرید کر 2 ڈالر میں بیچی جائے تو ملک پیسا کہاں سے لائے گا؟ وزیر خزانہ نے کہا کہ اگر ہم نے انڈسٹریز کو گیس دینے کا وعدہ کیا ہے تو یہ بات واضح ہے کہ ہم ان کو گیس ضرور دیں گے اور اگر بھارت، بنگلہ دیش اور سری لنکا میں سستی گیس مل رہی ہوگی تو ہم اپنے لوگوں کو مہنگی گیس نہیں دے سکتے، لیکن ہمیں سبسڈیز اور نقصان کو بھی دیکھنا ہوگا۔
انہوں نے بتایا کہ وزیراعظم اکثر کہتے تھے کہ بینکنگ کمپنیز کی طرح آئل مارکیٹنگ کمپنیز پر بھی ٹیکس بڑھا دیں مگر میں ہمیشہ کہتا تھا کہ یہ ممکن نہیں ہے، تاہم ہمیں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ ایس این جی پی ایل ہر سال 2.4 ارب روپے کی گیس ہوا میں اڑا دیتی ہے، اس لیے میں کہا رہا ہوں کہ ملک کے انتظامی معاملات کو ٹھیک کرنا ہوگا ورنہ ملک کی معیشت نہیں چلے گی۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت مشکل فیصلوں کے علاوہ اور کوئی چوائس نہیں ہے، یہ بجٹ بھی اس کی کڑی ہے، اس سال کے بجٹ میں 4 کھرب 598 ارب کا خسارہ آرہا ہے، تاریخ کے 4 بڑے بجٹ خسارے عمران خان کے دور حکومت میں ہوئے۔
انہوں نے کہا کہ جس سال میں چھوڑ کر گیا تھا اس سال ہم نے 1499 ارب روپے قرجوں کی ادائیگی کی مد میں رکھے تھے، اس سال ہم نے قرضوں کی ادائیگی کی مد میں 3 ہزار 950 ارب روپے کا تخمینہ رکھا ہے، یعنی آپ صرف قرضوں کی ادائیگی کی مد میں 2500 ارب روپیہ اور دے رہے ہیں، یہ 2 دفاعی بجٹ کے برابر ہوگیا۔
انہوں نے کہا کہ ملک میں ہم 7 ہزار 4 ارب روپے ٹیکس جمع کریں گے، نان ٹیکس ریونیو 2 ہزار ارب ہوجائے گا، 4 ہزار ارب روپیہ ہم صوبوں کو دے دیں گے، قرضوں کی ادائیگی میں ہمیں 4 ہزار ارب دینا ہوگا، اس کے بعد صرف ایک ہزار ارب روپے رہ جائیں گے جس میں ہمیں حکومت بھی چلانی ہے، سببسڈیز بھی دینی ہیں اور اس کے بعد گلگت بلتستان، آزاد کشمیر اور اسلام آباد کو بھی پیسے وفاق نے دینے ہیں جوکہ صوبوں کے بجٹ سے دیا جانے چاہیے لیکن وفاق ادا کرتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس صورتحال میں ہمیں ملک کو آگے لے کر چلنا ہے، میں اب بھی یقین سے کہتا ہوں کہ اس ملک کے جتنے وسائل ہیں اس کا 5 فیصد بھی استعمال نہیں کیا جارہا۔
انہوں نے کہا کہ کیا وجہ ہے کہ بھارت اور بنگلہ دیش سے ہم پیچھے رہ گئے ہیں جن سے ہم ماضی مں آگے ہوتے تھے، ہمارے اس نہج پر پہنچنے کی وجہ محض بے انتظامی ہے۔
انہوں نے میڈیا کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اب ہم انتظامی صورتحال پر قابو پائیں گے، میں میڈیا سے بھی گزارش کرتا ہوں کہ اگر ہم مشکل فیصلے کریں تو ایک ایک چیز پر نہ چلائیں، اگر ہم پیٹرول مہنگا کرتے ہیں تو پیسے میں گھر نہیں لے کر جاتا قومی خزانے میں ہی جمع ہوتے ہیں۔