سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ایک کیس کی سماعت کے دوران اے این ایف (اینٹی نارکوٹکس فورس) پر شدید برہمی کا اظہار کیا۔سپریم کورٹ میں جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے چرس اسمگلنگ کیس کی سماعت کی جس میں عدالت نے چرس اسمگلنگ کیس کے ملزم عدنان خان کی ضمانت منظور کرلی۔
عدنان خان کے وکیل عظمت علی شاہ نے دلائل میں بتایا کہ ملزم بائیک پر صرف سوار تھا وہ اس کا مالک نہیں تھا،بائیک کا مالک خود چلا رہا تھا۔
دورانِ سماعت جسٹس قاضی فائز نے سوال کیا کہ اے این ایف کے پاس بائیک پرچرس لے جانے کی کوئی معلومات تھیں؟ اس جواب میں اے این ایف کے پراسیکیوٹر نے کہا بغیرنمبرپلیٹ بائیک دیکھ کر روکا توچرس برآمد ہوگئی۔
معزز جج نے کہا کہ بغیر نمبرپلیٹ گاڑیوں کو روکنا پولیس کاکام ہے، اے این ایف کا نہیں، شہر میں ہزار گاڑیاں بغیر نمبرپلیٹ ہوں گی توکیا اے این ایف سب کی تلاشی لے گا؟ 3 کلو چرس بائیک کی سیٹ کے نیچے آسکتی ہے؟ اے این ایف والوں کو قانون سپریم کورٹ نے نہیں پڑھانا، یہ لوگ کم ازکم اپنا قانون تو پڑھ لیں، پڑوسی سے جھگڑا ہو تو اس پر بھی منشیات ڈال دیں۔
جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ اہم مقدمات میں اپنے رویے کی وجہ سے اے این ایف نے خود کومشکوک کرلیا ہے، دوسرے مقاصد کے لیے اے این ایف نے اپنی ساکھ خراب کرلی جس وجہ سے سوالات اٹھ رہے ہیں،کل پھرکسی جج کی گاڑی سے چرس نکال لیں تو کیا ہوگا؟
جسٹس قاضی فائز نے مزید کہا کہ سب پتا ہے منشیات کہاں بکتی ہیں، وہاں اے این ایف کوئی کارروائی نہیں کرتا، بغیر معلومات اے این ایف کسی سواری کو کیسے روک سکتا ہے؟اس موقع پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ قانون واضح ہے، معلومات ہوں گی پھر کارروائی ہوگی۔