اسلام آباد کی عدالت نے شہباز گل کے جسمانی ریمانڈ مسترد ہونے کے خلاف نظر ثانی درخواست پر فیصلہ سنادیا۔اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ میں پی ٹی آئی رہنما شہباز گل کا جسمانی ریمانڈ مسترد ہونے کے حکم کے خلاف نظرثانی درخواست پرسماعت ہوئی جس میں شہباز گل کے وکیل اور اسپیشل پراسیکیوٹر نے دلائل دیے۔
شہباز گل کے وکیل سلمان صفدر نے دلائل میں کہا کہ ریمانڈ میں چند پہلوؤں کو خفیہ قرار دیا گیا ہے، پولیس کو ملزم شہبازگل کا جسمانی ریمانڈ کیوں چاہیے؟ اس کا تعین ضروری ہے، شہبازگل کے خلاف درج مقدمہ بدنیتی پرمبنی ہے، ہمیں کیس کا ریکارڈ بھی فراہم نہیں کیا گیا۔
وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ شہبازگل نے گرفتاری کے وقت اپنا موبائل جیب میں ڈالا جو ویڈیو میں واضح ہے، پولیس کے پاس ہی تو موبائل فون ہے، تو پھرموبائل کیوں مانگ رہے ہیں؟ کیس میں کمپلیننٹ کیا عدالت میں موجود ہے؟ مجھے محسوس نہیں ہورہا۔
سلمان صفدر نے مؤقف اپنایا کہ تقریر کا مخصوص حصہ مقدمے میں درج کیا گیا جو نامناسب ہے، ٹی وی اینکرنے سوال پوچھا جس پر جواب دیا گیا، اس میں پہلے سے کیسے کچھ پلان ہوسکتا ہے؟ مجسٹریٹ نے 3 دن کا جسمانی ریمانڈ دیا تھا، فوراً استدعا مسترد نہیں کی تھی۔
وکیل صفائی نے کہا کہ پراسیکیوشن کو جسمانی ریمانڈ مبینہ شریک ملزم تک پہنچنے کیلئے چاہیے، شہبازگل کے خلاف جو دفعات لگائی گئیں وہ سزائے موت اور عمرقید کی ہیں۔
وکیل صفائی کے دلائل پر جج نے مکالمہ کیا کہ آپ بتائیں،کیا اس تقریر پرسزائے موت کی دفعات بنتی ہیں؟ اس پر وکیل نے کہا کہ تفتیشی افسر کے مطابق حساس نوعیت کا مقدمہ ہے، ایسا نہیں کہنا چاہیے تھا۔
اسپیشل پراسیکیوٹر نے اپنے دلائل میں کہاکہ ملزم شہبازگل کے پاس 2 موبائل فون تھے اور ملزم کا اسمارٹ فون ریکور کرنا ابھی باقی ہے، آزادی اظہار رائے کی آڑمیں شہبازگل نے دیگرجرم بھی کیے، باربار جسمانی ریمانڈ نہیں مانگ رہے، تفتیشی افسر کو جسمانی ریمانڈ لینے کا مکمل وقت نہیں دیا گیا، شہبازگل کا 2 بار میڈیکل کیا گیا،کوئی ٹارچرکا ثبوت سامنے نہیں آیا۔بعد ازاں عدالت نے فریقین کے دلائل مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا جو تقریباً ساڑھے تین بجے سنایا گیا۔عدالت نے اپنے فیصلے میں شہباز گل کو 48 گھنٹوں کے لیے پولیس کے حوالے کرنے کا حکم دیا۔