کنوینر ایم کیو ایم پاکستان خالد مقبول صدیقی کا کہنا ہے مردم شماری کے حوالے سے سپریم کورٹ کے احکامات نہ مانے گئے تو 28 اگست کو ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے نتائج تسلیم نہیں کریں گے۔
کراچی میں پریس کانفنرسن کرتے ہوئے سربراہ ایم کیو ایم پاکستان خالد مقبول صدیقی کا کہنا تھا کہ حلقہ بندیاں کرنا کسی صوبائی حکومت کے دائرہ اختیار میں نہیں اور سپریم کورٹ کے فیصلے میں بھی کہا گیا ہے کہ حلقہ بندیاں الیکشن کمیشن کر سکتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ موجودہ حلقہ بندیاں لسانی بنیادوں پر کی گئی ہیں، حلقہ بندیوں میں اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کر دیا گیا ہے، سندھ کے شہری اور دیہی علاقوں میں کی گئی حلقہ بندیاں آئین کی دھجیاں بکھیرنے کے مترادف ہے، کراچی اور حیدر آباد میں جس طرح کی حلقہ بندیاں کی گئی ہیں اس میں لسانیت کو فروغ دیا گیا ہے۔
خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ کہیں 90 ہزار، کہیں 50 سے 30 ہزار پر حلقہ بنایا گیا ہے، جہاں ہمارے ووٹر ہیں وہاں کی حلقہ بندی زیادہ ووٹرز پر کی گئی ہیں، یہ انتخابات سے پہلے کی گئی دھاندلی ہے، ہم عدالت میں صاف اور شفاف انتخابات کے انعقاد کے لیے گئے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا، الیکشن کمیشن بھی گئے، وزیراعظم اور صدر مملکت سے سوال کرتا ہوں کہ انصاف کے لیے اور کہاں جائیں؟
سندھ میں بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کنوینر ایم کیو ایم پاکستان کا کہنا تھا ہم بلدیاتی الیکشن میں ایک دن کی بھی تاخیر نہیں چاہتے، پچھلی بار بارش کی بنیاد پر الیکشن ملتوی کیا گیا تھا۔
سربراہ ایم کیو ایم پاکستان کا مزید کہنا تھا کہ ہر مردم شماری میں شہری علاقوں میں لوگوں کو کم دکھایا گیا لیکن اب کی بار ڈنڈا مارا گیا ہے، مقدمہ اب بھی سپریم کورٹ میں ہے کہ قانون کے مطابق مردم شماری کریں، ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ جو باتیں سپریم کورٹ نے مانی ہیں وہ حکومت بھی مانے، اگر ایسا نہ کیا گیا تو 28 اگست کے نتائج ہم نہیں مانیں گے۔