عمران خان کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے ریمارکس دیے کہ کریمنل توہین عدالت بہت حساس معاملہ ہوتا ہے، اس عدالت کے لیے ڈسٹرکٹ کورٹ ریڈ لائن ہے،جرم بہت سنجیدہ نوعیت کا ہے، ہم نے پچھلی بار سمجھایا تھا لیکن آپکو احساس نہیں ہوا۔
عمران خان کے خلاف خاتون جج زیبا چوہدری کو دھمکی دینے سے متعلق توہین عدالت کیس کی چیف جسٹس اطہرمن اللہ کی سربراہی میں اسلام آباد ہائیکورٹ کا 5 رکنی بینچ سماعت کر رہا ہے۔
عمران خان کی عدالت آمد کے موقع پر سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے ہیں۔
سماعت کے دوران روسٹرم پر زیادہ وکلا آنے پر چیف جسٹس نے دیگر وکلا کو بیٹھنے کا کہہ دیا جس کے بعد عمران خان کے وکیل حامد خان نے دلائل شروع کردیے۔
انہوں نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں اب توہین عدالت کیس کو بند کردیا جائے، اپنے دلائل کے دوران وکیل حامد خان نے دانیال عزیز کیس کا ذکر بھی کیا، انہوں نے کہا کہ گزشتہ سماعت پر عدالت نے سپریم کورٹ کے توہین عدالت کیسز کا جائزہ لینے کا حکم دیا تھا، گزشتہ سماعت کے حکم نامے میں عدالت نے دانیال عزیز اور طلال چوہدری کے مقدمات کا حوالہ دیا۔
حامد خان نے کہا کہ عمران خان کا کیس دانیال عزیز اور طلال چوہدری کے مقدمات سے مختلف ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ جوڈیشل، سول اور کریمنل تین طرح کی توہین عدالت ہوتی ہیں، دانیال عزیز اور طلال چوہدری کے مقدمے میں کریمنل توہین نہیں تھی،انہوں نے عدالت کے کردار پر بات کی تھی۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس نے کہا کہ عمران خان کی کریمنل توہین ہے، زیر التوا مقدمے پر بات کی گئی، آپ کا جواب پڑھ لیا ہے، سپریم کورٹ کے فیصلے ہم پر بائنڈنگ ہیں، سپریم کورٹ کے تین فیصلوں کو ہائی لائٹ کرنا مقصد تھا۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ فردوس عاشق اعوان کیس میں تین قسم کی توہین عدالت کا ذکر ہے ، ہم نے عدالت کو سکینڈلائز کرنے پر توہین عدالت کی کارروائی شروع نہیں کی، عدالت پر تنقید کریں، ہم سکینڈلائز کرنے پر توہین عدالت کی کارروائی نہیں کریں گے، کرمنل توہین عدالت بہت سنجیدہ نوعیت کی ہوتی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کریمنل توہین عدالت میں دانست غیرمتعلقہ ہو جاتی ہے، اسے نہیں دیکھا جاتا، کریمنل توہین عدالت میں یہ نہیں کہا جاتا کہ بات کرنے کا مقصد کیا تھا، ہم نے آپکو سمجھایا تھا کہ یہ کریمنل توہین عدالت ہے۔
اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ آپکا جواب حتمی تھا اور ہم نے تفصیلی پڑھا، آپ کو ہدایت کی تھی کہ سوچ سمجھ کر اپنا جواب داخل کریں۔
اس دوران عدالت کے کہنے پر عمران خان کے وکیل حامد خان توہین عدالت کیس کا ایک فیصلہ پڑھ کر سنا رہے ہیں، حامد خان نے کہا کہ معافی کو تسلیم کرنا یا نہ کرنا عدالت کے اطمینان پر منحصر ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم اظہار رائےکی آزادی کے محافظ ہیں لیکن اشتعال انگیزی کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔
چیف جسٹس نے عمران خان کے وکیل حامد خان کو توہین عدالت کی سیکشن 9 پڑھنے کی ہدایت دی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کریمنل توہین عدالت بہت حساس معاملہ ہوتا ہے، اس عدالت کے لیے ڈسٹرکٹ کورٹ ریڈ لائن ہے، اگر کسی جج کے فیصلے سے متاثر ہوں تو اس کا طریقہ کار قانون میں موجود ہے، توہین آمیز بات کون اور کہاں کرتا ہے یہ بات بہت اہم ہوتی ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہا سوسائٹی اتنی پولرائز ہے کہ فالورز مخالفین کو پبلک مقامات پر بےعزت کرتے ہیں، اگر یہی کام وہ اس جج کے ساتھ کریں تو پھر کیا ہو گا؟ کیا یہ لب لہجہ کسی سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ کے جج کے لئے استعمال کی جا سکتا ہے؟
چیف جسٹس نے کہا کہ عدلیہ کی آزادی اس عدالت کی اولین ترجیح ہے، ہم نے وکلاء تحریک سے کچھ بھی نہیں سیکھا، کیا آپکا فیصلہ سپریم کورٹ کے فیصلوں کے مطابق ہے؟ آپ نے اپنے جواب میں اپنے عمل کا جواز پیش کرنے کی کوشش کی ہے، حامد خان نے کہا کہ ہم نے جواز نہیں وضاحت پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کیا کوئی سابق وزیراعظم قانون کو نظرانداز کر سکتا ہے؟ جرم بہت سنجیدہ نوعیت کا ہے، ہم نے پچھلی بار سمجھایا تھا لیکن آپکو احساس نہیں ہوا، کیا سابق وزیراعظم یہ جواز پیش کر سکتا ہے کہ اسے قانون کا علم نہیں تھا؟
‘جواب میں شہباز گل پر تشدد کو ‘مبینہ’ نہیں لکھا’
اس دوران جسٹس بابر ستار نے حامد خان کو شوکاز نوٹس کا پیرا 5 پڑھنے کی ہدایت کی۔
جسٹس بابر ستار نے وکیل حامد خان سے مکالمہ کیا کہ آپ نے کہا کریمنل توہین کا ذکر نہیں، شوکاز میں صاف لکھا ہے عمران خان نے کریمنل اور جوڈیشل توہین کی۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ آپ نے جواب میں شہباز گل پر تشدد کو ‘مبینہ’ نہیں لکھا، معاملہ ابھی بھی عدالت میں ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ اپنے جوابات میں توہین عدالت کو جسٹیفائی کر رہے ہیں جس پر حامد خان نے کہا کہ جسٹیفائی اور وضاحت دینے میں فرق ہوتا ہے، میں وضاحت دے رہا ہوں۔
چیف جسٹس نے وکیل سے استفسار کیا کہ کیا یہی الفاظ سپریم کورٹ یا ہائیکورٹ کے ججز کے لیے ہوتا تو یہی جواب دیتے، آپ جسٹیفائی کررہے ہیں کہ ٹارچر ہوا ہے، یہ بتائیں فیصلے جلسوں میں ہونگے اور یا عدالتوں میں۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ ستر سالوں میں جو ہوا اچھا نہیں ہوا، یہ عدالت بہت ہی محتاط رہتی ہے۔
حامد خان نے کہا کہ ہمارے لئے سپریم کورٹ، ہائی کورٹ اور ماتحت عدلیہ کے ججز قابل عزت ہے، مجھے نہیں معلوم کہ تب الزام کیا ہوتا
چیف جسٹس نے کہا کہ ڈسٹرکٹ کورٹ کے ججز سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ سے زیادہ اہم ہے۔
حامد خان نے کہا کہ کئی بار بات اتنی سنجیدہ نہیں ہوتی جتنی سمجھ لی جاتی ہے، عمران خان نے شاید ایکشن کے لفظ کو درست طور پر نہیں کہا۔
جسٹس بابر ستار نے ریمارکس دیے کہ کیا توہین عدالت ایکٹ کے تحت لیگل ایکشن کو اس طرح پبلک میں کہا جا سکتا ہے؟ جس پر حامد خان نے کہا کہ لیگل کارروائی تو ہر ایک کا حق ہوتا ہے۔
جسٹس بابر ستار نے کہا کہ قانون فورمز بتاتا ہے کہ جہاں ایکشن لیا جا سکتا ہے، نہ کہ جلسوں میں۔
حامد خان نے کہا کہ ایکشن کا کہنا لازمی طور پر کسی کو دھمکانے کی کوشش نہیں ہوتی، چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ کسی جج کے کوئی جذبات نہیں ہوتے۔
حامد خان نے کہا کہ ہم عدالت کو یقین دلاتے ہیں کہ کوئی دھمکی نہیں دی گئی تھی، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اگر آپ چاہتے ہیں تو ہم وہ ویڈیو دوبارہ چلا دیتے ہیں۔
جسٹس بابر ستار نے کہا کہ پبلک میں جو الزام لگایا گیا یا جو الفاظ کہے گئے کیا انکا جواز پیش کیا جا سکتا ہے؟
دوران سماعت عمران خان نے شعیب شاہین کو لقمہ دیا کہ میں نے جلسے میں کہا تھا، شعیب شاہین عمران خان کا پیغام لیکر حامد خان کے پاس پہنچ گئے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عمران خان نے لکھا کہ اگر جج کے جذبات مجروح ہوئے، جج کے جذبات نہیں ہوتے، آپ اپنا جواب جتنا پڑھتے جائیں گے اتنا مسئلہ ہو گا، خاتون جج لاہور جا رہی ہوں گی، موٹروے پر کھڑے ہوئے کوئی واقعہ ہو سکتا ہے، کیا آپ یہ چاہتے ہیں کہ ایسا ہو؟ عدالت آپ کو سمجھا رہی ہے۔
جسٹس بابر ستار نے ریمارکس دیے کہ کیا ایک رہنما ایک جج کے خلاف قانونی کارروائی کی بات عوامی جلسے میں کرسکتا ہے؟ حامد خان نے کہا کہ قانونی کارروائی کرنا تو ہر کسی کا حق ہے۔
قبل ازیں، عمران خان نے کمرہ عدالت میں صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اتنی سیکیورٹی پتا نہیں کیوں ہے، میں نے زندگی میں اتنی پولیس نہیں دیکھی، ان کو خوف کس بات کا ہے، ایسا لگ رہا تھا جیسے کلبھوشن یادیو آرہا ہے۔
عمران خان نے کہا کہ سماعت کے بعد مزید گفتگو کروں گا، کہی ایسا نہ ہو کوئی غلط ٹکرز چل جائے۔خیال رہے کہ گزشتہ سماعت پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے عمران خان کی جانب سے 20 اگست کو اسلام آباد میں ریلی سے خطاب کرتے ہوئے ایڈیشنل جج زیبا چوہدری سے متعلق بیان پر توہین عدالت کے کیس میں 8 ستمبر تک عمران خان کو جواب جمع کرانے کا حکم دیا تھا۔
31 اگست کو دیے گئے عدالت کے حکم کے مطابق سابق وزیر اعظم نے گزشتہ روز اسلام آباد ہائی کورٹ میں دوبارہ نیا تحریری جواب جمع کرا دیا تھا۔
عمران خان کی جانب سے 7 ستمبر کو دوبارہ جمع کرائے گئے جواب میں کہا گیا تھا کہ غیر ارادی طور پر بولے گئے الفاظ پر افسوس ہے، بیان کا مقصد خاتون جج کی دل آزاری کرنا نہیں تھا، اگر خاتون جج کی دل آزاری ہوئی تو اس پر افسوس ہے۔
سابق وزیراعظم نے اپنے جواب میں کہا کہ اپنے الفاظ پر جج زیبا چوہدری سے پچھتاوے کا اظہار کرنے سے شرمندگی نہیں ہوگی، عدلیہ کے خلاف توہین آمیز بیان کا سوچ بھی نہیں سکتا، تقریر کے دوران لفظ ‘شرمناک’ توہین کے لیے استعمال نہیں کیا، میرے الفاظ سے جج زیبا چوہدری کے جذبات مجروح ہوئے، اس پر گہرا افسوس ہے، غیر ارادی طور پر منہ سے نکلے الفاظ پر گہرا افسوس ہے۔
انہوں نے اپنے جواب میں عدالت عالیہ سے وضاحت کو منظور کرنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا تھا کہ توہین عدالت کا شوکاز نوٹس واپس لیا جائے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ میں جمع کرائے گئے اپنے جواب میں سابق وزیر اعظم نے غیر مشروط معافی نہیں مانگی، عمران خان نے توہین عدالت کیس کے جواب میں افسوس کا اظہار کیا۔
31 اگست کو چیف جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب، جسٹس طارق محمود جہانگیری اور جسٹس بابر ستار پر مشتمل 5 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی تھی۔
گزشتہ سماعت کے دوران چیف جسٹس نے عمران خان کے وکیل حامد خان سے مکالمہ کیا تھا کہ جو جواب پڑھا مجھے اس کی توقع نہیں تھی، مجھے توقع تھی کہا جائے گا غلطی ہوئی ہے۔