بلوچستان کابینہ میں بطور اتحادی شریک جمعیت علمائے اسلام (ف) کو شامل کرنے کے لیے مذاکرات آخری مرحلے میں داخل ہوتے ہی وزیراعلیٰ میر عبدالقدوس بزنجو نے کہا کہ کسی وزیر یا مشیر کو کابینہ سے نہیں ہٹایا جائے گا اور جے یو آئی )ف( اس کی طاقت کے مطابق کابینہ میں ایڈجسٹ کیا جائے گا۔
عبدالقدوس بزنجو نے حکمران بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی) کے اراکین صوبائی اسمبلی، جے یو آئی ف اور صوبائی اسمبلی میں نمائندگی رکھنے والی دیگر جماعتوں کے رہنماؤں سے ملاقاتوں کا ایک مصروف دن گزارا۔
وزیراعلیٰ جے یو آئی (ف) کے صوبائی سربراہ مولانا عبدالواسع کی رہائش گاہ پر گئے اور ان کی پارٹی کی کابینہ میں شمولیت پر تبادلہ خیال کیا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ جے یو آئی (ف) کے رہنما نے وزیراعلیٰ کو بتایا کہ جے یو آئی (ف) وزارتوں اور محکموں کی تعداد سے متعلق شرائط کے ساتھ حکومت میں شامل ہونے کو تیار ہے۔
مولانا عبدالواسع نے ملاقات کے بعد کہا کہ ہماری ملاقات وزیراعلیٰ کی خواہش پر ہوئی جس میں عبدالقدوس بزنجو نے معاملے کو حتمی شکل دینے کے لیے دو روز کا وقت مانگا۔
انہوں نے کہا کہ پیر تک صورتحال واضح ہو جائے گی تاہم جے یو آئی (ف) اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کرے گی، پارٹی اپوزیشن میں ہو یا حکومت میں صوبے کے عوام کی خدمت جاری رکھے گی۔
بعد ازاں میڈیا سے گفتگو میں وزیراعلیٰ نے اس تاثر کی تردید کی کہ جے یو آئی (ف) کو کابینہ میں شامل کرنے پر حکمران بی اے پی کے درمیان اختلافات ہیں اور کہا کہ جے یو آئی (ف) کو کابینہ میں شامل کرنے کے معاملے پر انہیں دیگر پارٹیوں کا اعتماد حاصل ہے۔
بلوچستان انسٹی ٹیوٹ آف نیفرولوجی اینڈ یورولوجی کا دورہ کرنے کے بعد وزیراعلیٰ نے میڈیا کو بتایا کہ انہوں نے جے یو آئی (ف) کو صوبے میں مخلوط حکومت میں شامل ہونے کی دعوت دی ہے۔
وزیراعلیٰ کا کہنا تھا کہ ‘انہیں آکر کابینہ میں شامل ہونا چاہیے کیونکہ وہ تمام سیاسی جماعتوں کے بلامقابلہ قائد ایوان منتخب ہوئے تھے اس لیے جے یو آئی(ف) کا بھی حکومت میں کردار ہے اور بہتر ہے کہ وہ حکومت میں شامل ہوں’۔
عبدالقدوس بزنجو نے کہا کہ وہ کسی وزیر یا مشیر کو نہیں ہٹائیں گے لیکن ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ بی اے پی کے رہنما صوبے کے وسیع تر مفاد اور بہتر طرز حکمرانی میں تمام جماعتوں کو ایک پیج پر لانے کے لیے ‘یقینی طور پر قربانیاں دیں گے’۔
وزیراعلیٰ نے سردار اختر جان مینگل سے بھی ملاقات میں بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی-مینگل) کو بھی حکومت میں شمولیت کی دعوت دی تھی لیکن انہوں نے اس پیشکش کو قبول کرنے سے انکار کردیا۔
حکومتی بنچوں پر بیٹھی بی این پی مینگل نے بلوچستان میں جام کمال کی زیرقیادت مخلوط حکومت کو ہٹانے میں اہم کردار ادا کیا تھا اور عبدالقدوس بزنجو کی زیرقیادت حکمران اتحاد کے ساتھ ان کے بہت خوشگوار تعلقات تھے۔
پارٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیراعلیٰ بی اے پی کے سابق وزیر نوابزادہ طارق حسین منگی کی رہائش گاہ پر بھی گئے اور ان سے صوبے میں چھ جماعتی مخلوط حکومت میں جے یو آئی (ف) کی مجوزہ شمولیت پر تبادلہ خیال کیا۔