چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے تاحیات نااہلی کیس میں ریمارکس دیے کہ فیصل واوڈا نے امریکی شہریت کاغذات نامزدگی جمع کرانے کے بعد چھوڑی تاہم کسی کو تاحیات نااہل کرنا اتنا آسان نہیں ہے۔
پی ٹی آئی رہنما فیصل واوڈا کی تاحیات نااہلی سے متعلق کیس کی سماعت چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں ہوئی۔
درخواست گزار کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ فیصل واوڈا کا سارا جھگڑا سینیٹ کی نشست کا ہے جبکہ فیصل واوڈا کے وکیل وسیم سجاد نے کہا کہ ان کے موکل نے نہ حقائق چھپائے نہ بددیانتی کی۔
جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ فیصل واوڈا نے کاغذات نامزدگی کب جمع کرائے؟ وکیل وسیم سجاد نے بتایا کہ فیصل واوڈا نے کاغذات نامزدگی 7جون 2018کو جمع کرائے اور ان کے کاغذات نامزدگی کی اسکروٹنی 18جون کو ہوئی۔
جسٹس منصور علی شاہ نے پوچھا کہ فیصل واوڈا نے بیان حلفی کب جمع کرایا تھا؟ جس پر وسیم سجاد نے کہا کہ فیصل واوڈا نے بیان حلفی 11 جون 2018 کو جمع کرایا، ریٹرننگ افسر کو بتا دیا تھا کہ امریکی شہریت چھوڑ دی ہے، امریکن قونصلیٹ جا کر نائیکاپ منسوخ کرایا۔
جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ آپ نے کس تاریخ کو امریکی سفارتخانے جاکر نیشنیلٹی منسوخ کرائی؟
وکیل فیصل واوڈا نے کہا کہ امریکی سفارت خانے جاکر کہہ دیا تھا کہ نیشنیلٹی چھوڑ رہا ہوں، جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ کیا آپ نے ایمبیسی جاکر زبانی بتا دیا کہ میرا پاسپورٹ کینسل کر دو؟
وسیم سجاد کا کہنا تھا کہ امریکی شہریت چھوڑنے کا ثبوت میں نے تو نہیں دینا تھا، جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ بیان حلفی 11 جون کو جمع کرانے سے پہلے آپ نے زحمت ہی نہیں کی کہ دہری شہریت کا معاملہ ختم کریں؟
فیصل واوڈا کے وکیل نے کہا کہ نادرا نے 29 مئی 2018 کو امریکی شہریت کینسل ہونے کا سرٹیفکیٹ دیا تھا، جس پر جسٹس عائشہ ملک نے پوچھا کہ جب آپ نے امریکی سفارتخانے جاکر شہریت کینسل نہیں کرائی تو نادرا نے سرٹیفکیٹ کیسے جاری کر دیا؟ بیان حلفی جمع کراتے وقت فیصل واوڈا کی امریکی شہریت کینسل نہیں ہوئی تھی۔
وکیل وسیم سجاد نے کہا کہ اصل سوال تاحیات نااہلی کی ڈیکلیئریشن کا ہے جو کمیشن نہیں دے سکتا۔
چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ آرٹیکل 62 ون ایف کا ڈیکلیئریشن عدالت ہی دے سکتی ہے، شواہد کا جائزہ لیے بغیر کسی کو بددیانت یا بے ایمان نہیں کہا جا سکتا۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ زندگی بھر کے لیے کسی کو نااہل کرنا اتنا آسان نہیں، عدالتی ڈیکلیئریشن کا مطلب ہے کہ شواہد ریکارڈ کیے جائیں۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ سپریم کورٹ اپنے فیصلوں میں آرٹیکل 62 ون ایف کے اطلاق کا معیار مقرر کر چکی ہے، فیصل واوڈا نے امریکی شہریت کاغذات نامزدگی جمع کرانے کے بعد چھوڑی ہے۔
پی ٹی آئی رہنما کے وکیل وسیم سجاد نے کہا کہ دہری شہریت پر آرٹیکل 63 ون سی کا اطلاق ہوتا ہے، دہری شہریت پر رکن صرف ڈی سیٹ ہوتا ہے تاحیات نااہل نہیں ہوتا۔
سپریم کورٹ نے فیصل واوڈا کی تاحیات نااہلی سے متعلق کیس کی سماعت آئندہ بدھ تک ملتوی کر دی۔