پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین اور سابق وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ مجھے معلوم تھا کہ سینیئر صحافی ارشد شریف کو قتل کیا جا رہا ہے اور میں نے ان کو ملک سے باہر جانے کو کہا تھا۔
پشاور میں وکلا کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے سابق وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ صحافی ارشد شریف کو نامعلوم نمبروں سے دھمکیاں ملیں کہ حکومت کی تبدیلی پر نہ بولو، سچ نہ کہو اور ان کو ڈرانے کے لیے دھمکیاں دی گئیں اور پھر مجھے اطلاع ملی کہ ان کو قتل کیا جا رہا ہے۔
عمران خان نے کہا کہ ارشد شریف کو صرف اس لیے گھر جا کر ڈرایا جاتا تھا اور گھر کے باہر گاڑیاں کھڑی ہوتی تھیں کہ وہ سچ نہ بولے۔انہوں نے کہا کہ ارشد شریف کا کوئی ایجنڈا نہیں تھا، میں نے ان کو کہا کہ ملک سے باہر چلے جاؤ جس پر وہ پہلے نہیں مانے اور پھر میں نے ان کو کہا کہ مجھے اطلاعات ملی ہیں کہ جس طرح بند کمرے میں 4 لوگوں نے مجھے قتل کرنے کی سازش کی ہے ان کو بھی مارا جائے گا۔
عمران خان نے کہا کہ جب ارشد شریف سمجھتے تھے کہ میں غلط کر رہا ہوں تو مجھ پر بہت تنقید کیا کرتے تھے، کسی بھی مافیا کو بخشا نہیں کرتے تھے اور اپنے ہر پروگرام میں 30 سال سے ملک کو لوٹنے والے دو خاندانوں پر بات کیا کرتے تھے۔
انہوں نے کہا کہ جتنی میں نے تاریخ پڑھی ہے اور دین کا مطالعہ کیا ہے، انسانوں اور جانوروں کے معاشرے میں سب سے زیادہ ایک ہی فرق ہے کہ جانوروں کے معاشرے میں انصاف نہیں ہے۔
سابق وزیر اعظم نے کہا کہ انسانی معاشرہ بنتا ہی اس وقت ہے جب کمزور کو طاقت ور سے انصاف ملے اور قانون کے سامنے سب برابر ہوں مگر پاکستان میں کبھی بھی قانون کی بالادستی نہیں رہی۔
انہوں نے کہا کہ ہم معاشرے کو زندہ رکھنے کے لیے ظلم کا مقابلہ کرتے ہیں۔
عمران خان نے مزید کہا کہ ارشد شریف کو نامعلوم فون نمبروں سے دھمکیاں آئیں کہ سچ نہ بولو، جب حکومت کی تبدیلی کو ایکسپوز کیا تھا تو اس پر انہیں ڈرایا دھمکایا گیا اور پھر مجھے اطلاعات ملیں کہ انہیں (ارشد شریف) کو مارنے لگے ہیں۔
عمران خان نے کہا کہ جب ارشد شریف ملک چھوڑ کر دبئی گئے اور وہاں ان کا ویزا ختم ہوگیا تو یہ لوگ انہیں اس لیے واپس بلا رہے تھے کہ وہ سچ نہ بولیں اور ان کے ساتھ بھی یہ لوگ وہی کرنا چاہتے تھے جو انہوں نے اعظم سواتی کو بند کمرے میں تشدد کیا۔
انہوں نے کہا کہ اسی طرح شہباز گِل اور صحافی جمیل فاروقی پر بھی تشدد کیا جبکہ سینیئر صحافی صابر شاکر کو بھی دھمکیا دی گئی جو ملک چھوڑ کر چلے گئے۔