سپریم کورٹ نے سینئر صحافی ارشد شریف کی میڈیکل رپورٹ غیر تسلی بخش قرار دے دی جب کہ آج رات تک قتل کا مقدمہ درج کرنے کا بھی حکم دیا ہے۔ترجمان سپریم کورٹ کے مطابق عدالت نے صحافی برادری اورعوام ارشدشریف کےقتل سے شدید تشویش پر سینئر صحافی کے قتل کا از خود نوٹس لیا ہے۔
چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے ارشدشریف قتل کیس کے ازخود نوٹس پر سماعت کی ، جسٹس اعجازالاحسن، جسٹس جمال خان مندوخیل ، جسٹس مظاہرعلی اکبرنقوی اور جسٹس محمد علی مظہر بھی بینچ کا حصہ ہیں، سماعت کے سلسلے میں ایڈیشنل اٹارنی جنرل، سیکرٹری داخلہ اور دیگر اعلیٰ حکام عدالت میں پیش ہوئے۔
دوران سماعت چیف جسٹس نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب ! ایک فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی بنی تھی، ارشد شریف کی والدہ کا خط آنے کے بعد سپریم کورٹ کا ایچ آرسیل تحقیقات کررہا ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ وزارت داخلہ نے پچھلے جمعہ کو فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کی رپورٹ جمع کرانی تھی جو کہ وزارت داخلہ نے اب تک جمع نہیں کرائی، کیا وزیرداخلہ کو بلالیں؟ کہاں ہیں وزیرداخلہ؟
جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا کہ کہاں ہیں سیکرٹری خارجہ؟ اسد مجید صاحب تو پہلے سے ہی کافی مقبول ہیں، سوشل میڈیا پر کیا کیا نہیں کہا جارہا، سوشل میڈیا پر جو کہا جارہا وہ اب نہیں دیکھتے۔چیف جسٹس کے استفسار پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے عدالت کو بتایا کہ کل فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کی رپورٹ پیش کردیں گے۔
ایڈیشنل اٹارنی کی یقین دہانی پر چیف جسٹس نے ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ تحقیقات کے معاملات میں وقت ضائع کرنا سپریم کورٹ کاکام نہیں سرکارکا ہے،ارشد شریف نامور صحافی تھے، ان کو کیوں قتل کیا گیا اور بیرون ملک ہی کیوں؟ پاکستان کے پاس وسیع وسائل ہیں کہ بیرون ملک معاملات پرتحقیقات کرسکیں، پاکستان کو بیرون ملک تک رسائی حاصل ہے۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب، فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کو واپس آئے کافی عرصہ ہوگیا ہے، حکومتی کمیشن کی حتمی رپورٹ تاحال سپریم کورٹ کو کیوں نہیں ملی؟ یہ کیا ہورہا ہے، رپورٹ کیوں نہیں آرہی؟ جو میڈیکل رپورٹ پیش کی گئی وہ بھی غیرتسلی بخش ہے، سینیئر ڈاکٹرز نے میڈیکل رپورٹ تیارکی لیکن وہ تسلی بخش نہیں، ہر انسانی جان کو سنجیدگی سے لینا ہوتا ہے، صحافیوں کےساتھ کسی صورت بدسلوکی برداشت نہیں کی جاسکتی، پاکستان میں صحافی سچائی کی آواز ہیں، اگرصحافی جھوٹ بولیں توحکومت کارروائی کرنے کا اختیار رکھتی ہے ۔
عدالت کے پوچھنے پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ وزیرداخلہ فیصل آباد میں تھے جب رپورٹ آئی، رانا ثنااللہ کے دیکھنے کے بعد رپورٹ سپریم کورٹ کو دی جائے گی، رپورٹ میں کچھ حساس چیزیں ہوسکتی ہیں، اس پر چیف جسٹس نے استفسار کیاکہ وزیرِداخلہ کو رپورٹ تبدیل کرنی ہے؟
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ ارشد شریف کے قتل کا مقدمہ درج کیوں نہیں ہوا؟ اس پر سیکرٹری داخلہ نے مؤقف اپنایا کہ فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ کا جائزہ لے کر مقدمہ درج کرنے کا فیصلہ ہوگا۔
جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہ کیا مقدمہ درج کرنے کا یہ قانونی طریقہ ہے؟ جسٹس اعجازالاحسن نے بھی استفسار کیا کہ مقدمہ درج کیے بغیر تحقیقات کیسے ہوسکتی ہیں؟ اس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ پانچ رکنی بینچ حالات کی سنگینی کی وجہ سے ہی تشکیل دیا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کی رپورٹ آج ہی جمع کرائیں تاکہ کل اس پر سماعت ہوسکے، 43 دن سے رپورٹ کا انتظار کررہے ہیں،معاملہ سنجیدگی سے لے رہے ہیں۔بعد ازاں عدالت نے ارشد شریف کے قتل کی ایف آئی آر آج رات تک درج کرنے کا حکم دیتے ہوئےسماعت 7 دسمبر تک ملتوی کردی۔
یاد رہے کہ کچھ روز قبل سابق وزیر اعظم عمران خان نے سینئر صحافی ارشد شریف کے قتل کیس کی تحقیقات کے لیے چیف جسٹس آف پاکستان کو خط لکھا تھا۔پی ٹی آئی کی جانب سے ٹوئٹر پر جاری اعلامیے میں بتایا گیا تھا کہ عمران خان نے ارشد شریف کے قتل کی آزادانہ جوڈیشل کمیشن کے تحت انکوائری کروانے کے لیے چیف جسٹس پاکستان کو خط لکھا ہے۔