وزیراعظم شہباز شریف کے صاحبزادے سلیمان شہباز لندن میں 4 سال کی خود ساختہ جلاوطنی کے بعد پاکستان واپس پہنچ گئے۔ان کی واپسی ایسے وقت میں ہوئی ہے جب کہ 3 روز قبل اسلام آباد ہائی کورٹ نے سلیمان شہباز کی حفاظتی ضمانت منظور کرتے ہوئے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کو وطن واپسی پر انہیں گرفتار کرنے سے روک دیا تھا اور انہیں 13 دسمبر کو عدالت میں سرنڈر کرنے کا حکم دے دیا تھا۔سلیمان شہباز 2018 سے لندن میں اپنی فیملی کے ساتھ رہائش پذیر تھے جب عام انتخابات سے قبل قومی احتساب بیورو (نیب) نے ان کے خلاف متعدد مقدمات درج کیے تھے۔آج، پارٹی کے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ پر سلیمان شہباز کے گھر واپس آنے اور اپنے والد سے گلے ملنے کی ویڈیو شیئر کی گئی، ویڈیو میں وزیر اعظم شہباز شریف کو سلیمان شہباز کو ہار پہناتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔
پارٹی کی جانب سے شیئر کی گئی ویڈیو میں وزیراعظم کے معاون خصوصی عطا اللہ تارڑ کو بھی دیکھا جا سکتا ہے۔انہوں نے اس ویڈیو کو شیئر کرتے ہوئے کیپشن میں لکھا ’اللہ اکبر، الحمدللہ، سلیمان شریف واپس آگئے ہیں۔ٹرائل کورٹ نے رواں سال جولائی میں 16 ارب روپے کی منی لانڈرنگ کیس میں سلیمان شہباز اور ایک اور ملزم کو اشتہاری قرار دیا تھا۔ایف آئی اے نے دسمبر 2021 میں شہباز شریف اور حمزہ شہباز کے خلاف شوگر اسکینڈل کیس میں 16 ارب روپے کی لانڈرنگ میں مبینہ طور پر ملوث ہونے پر خصوصی عدالت میں چالان جمع کرایا تھا۔
وزیراعظم شہباز شریف کے صاحبزادے سلمان شہباز وطن واپس پہنچ گئے pic.twitter.com/YarK6bZvjd
— PMLN (@pmln_org) December 10, 2022
ایف آئی اے کی جمع کروائی گئی رپورٹ کے مطابق تحقیقاتی ٹیم نے شہباز خاندان کے 28 بےنامی اکاؤنٹس کا پتا لگایا تھا جن کے ذریعے 2008 سے 2018 کے دوران 16.3 ارب روپے کی منی لانڈرنگ کی گئی، عدالت میں جمع کرائی گئی ایف آئی اے کی رپورٹ کے مطابق ایف آئی اے نے 17 ہزار کریڈٹ ٹرانزیکشنز کی منی ٹریل کی جانچ کی۔رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ یہ رقم ’چھپے ہوئے کھاتوں‘ میں رکھی گئی تھی اور ذاتی حیثیت میں شہباز شریف کو دی گئی تھی۔سلیمان شہباز کا کہنا تھا کہ نئے سیاسی نظام کے لیے جعلی مقدمات بنا کر مجھے پاکستان چھوڑنے پر مجبور کیا گیا تھا۔انہوں نے کہا تھا کہ مجھ پر بنائے گئے جھوٹے مقدمات سیاسی مخالفت کی بد ترین مثال تھے، نیب کے سابق چیئرمین جاوید اقبال اور اثاثہ جات ریکوری یونٹ کے تحت قومی احتساب بیورو کی طرف سے بنائے گئے کیسز میں کوئی سچائی نہیں تھی اور نہ ہی کرپشن کے شواہد ملے ہیں۔